ملک میں مہنگائی کی شرح بڑھتی جارہی ہے ہر چیز کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، روز مرہ کے استعمال کی چیزوں کی قیمتوںکو پر لگ گئے ہیں عوام کی قوت خرید جواب دے رہی ہے یہ ملک کا سب سے اہم اور بڑا مسئلہ ہے مگر افسوس کہ سب کی توجہ سیاسی کشیدہ حالات کی طرف ہے عوامی مسائل پس پشت ڈالے جارہے ہیں۔
لوگوں کی امیدیں اور توقعات یہ تھیں کہ عام انتخابات کے بعد نئی حکومت آئے گی تو مہنگائی پر قابو پالیا جائے گا، عوامی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے پر تمام تر توانائی لگائی جائے گی مگر سیاسی حالات بہتر ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے، ایڈہاک ججز کے معاملے کے بعد اب سیاسی میدان میں جنگ تیز ہوتی جارہی ہے ۔
حکومت اور عدلیہ کے درمیان بھی ٹکراؤ بڑھتا جارہا ہے جبکہ مستقبل قریب میں اس میں مزید شدت آنے کا امکان ہے ۔
ملک میں معاشی مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔
ملک میں مہنگائی کی شرح میں مسلسل تیسرے ہفتے بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ادارہ شماریات کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 0 اعشاریہ 76 فیصد مزید بڑھ گئی۔مہنگائی کی سالانہ مجموعی شرح 24 اعشاریہ 36 فیصد ہوگئی ہے۔
ایک ہفتے کے دوران 29 اشیاء ضروریہ مہنگی اور 5 کے نرخ کم ہوئے۔
چکن فی کلو 38 روپے 29 پیسے مہنگی ہو کر فی کلو قیمت 373.25 روپے سے بڑھ 412 روپے تک پہنچ گئی۔
خشک دودھ 390 گرام کا بیگ 44 روپے 89 پیسے ، پیٹرول فی لیٹر 10 روپے، انڈے فی درجن 6 روپے 78 پیسے اور لہسن فی کلو 10 روپے 42 پیسے مہنگا ہوا۔
دالیں،تازہ دودھ، چینی،چاول اور دہی بھی مہنگی ہونے والی اشیاء میں شامل ہیں۔
ایک ہفتے کے دوران ٹماٹر فی کلو 7 روپے 29 پیسے اور کیلے 3 روپے 62 پیسے سستے ہوئے۔
پیاز،دال مسور اور ایل پی جی بھی سستی ہونے والی اشیاء میں شامل ہیں۔
ادارہ شماریات کے مطابق بریڈ،کوکنگ آئل، چائے کی پتی، سگریٹ سمیت 17 اشیاء کے دام مستحکم رہے۔
بہرحال مہنگائی سمیت دیگر بحرانات پر قابو پانے کی ذمہ داری حکومت کی ہے اور ان اہم مسائل پر توجہ لازمی دینی ہوگی۔
حکومت معاشی پالیسیوں میں بہتری لانے سمیت عوام کو ریلیف فراہم کرنے پر خصوصی توجہ دے۔
سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے حوالے سے بھی تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ ملکی معاشی حالات پر مزید منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔