ملکی سیاست غیر معمولی حالات سے گزر رہی ہے جنہیں نظر انداز نہیںکیا جاسکتا ۔
کتنے تعجب کی بات ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں پارلیمان کی مضبوطی اور جمہور کی حکمرانی کے دعوے تو کرتی ہیں مگر ان کی سیاست کا محور و مرکز ادارے بن چکے ہیں جن میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ شامل ہیں۔ ان کے بیانات یہ عکاسی کرتے ہیں کہ ہمیںاداروں کی حمایت زیادہ سے زیادہ حاصل ہو۔
پھر اس کے بعد پارلیمان اور عوامی حق رائے دہی کی کیا افادیت اور وقعت رہ جاتی ہے۔
جب سیاسی جماعتیں خود تیسری قوت کی طرف دیکھتے ہیں تو ملک میں سیاسی و معاشی نظام کس طرح سے بہتر ہوسکتا ہے، جمہور کی حکمرانی کے بغیر کسی صورت سیاسی و معاشی استحکام نہیں آسکتا، سیاسی مسائل کا حل پارلیمان کے اندراور بات چیت کے ذریعے خود سیاسی جماعتوں کونکالنا چاہئے مگر بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے جس طرح کے بیانات سامنے آرہے ہیں وہ ملک کی ترقی اور استحکام کیلئے نیک شگون نہیں۔
وہی ممالک ترقی کرسکتے ہیں جہاں جمہور کی حکمرانی اور مضبوط پارلیمانی نظام ہو ، اورجو دستور موجود ہے اس کے مطابق ہی نظام کو چلاکر ہی مشکلات و چیلنجز کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے بیساکھیوں کے ذریعے ملکی نظام نہیں چل سکتا اور نہ ہی ادارے مضبوط ہوسکتے ہیں۔
ماضی کی بہت سی سیاسی غلطیوں کے باعث ملک آج معاشی و سیاسی حوالے سے عدم استحکام کا شکار ہے ،سیاسی جماعتوں کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے نہ کہ تاریخ کو دہراتے ہوئے مزیدغلطیاں کی جائیں۔ بہرحال سیاسی جماعتوں کے بیانات جو سامنے آرہے ہیں ان سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ محض اقتدار ہی ان کا مقصد ہے۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء عمرایوب کا میڈیا سے بات چیت کے دوران کہنا تھا کہ ن لیگ کی حکومت پاک فوج اور تحریک انصاف کو آمنے سامنے لانا چاہتی ہے لیکن تحریک انصاف اور سپہ سالار جنرل عاصم منیر ایسا ہونے نہیں دیں گے۔
بانی پی ٹی آئی کے پیغام پر ردعمل میں وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ فوج، آرمی چیف اور ریاست کے خلاف ان کا پروپیگنڈا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، اس طرح کے بیانات سے یہ ساری چیزیں بھلائی نہیں جا سکتیں۔
ن لیگ کے رہنماء رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی والے اپنی نجی محفلوں میں کہتے ہیں کہ ہماری بات ہوگئی ہے، نومبر میں چیف جسٹس بدلتے ہی الیکشن کی تیاری کریں۔
ان چیزوں کو اکٹھا کر کے دیکھیں تو پی ٹی آئی کی قیادت کی گفتگو پر شک ہوتا ہے، ہمیں الرٹ رہنا ہوگا اور ان چیزوں کو مینیج کرنا ہوگا۔
ہمیں نظر آرہا ہے کہ یہ کچھ کرنے جا رہے ہیں یا کوشش کریں گے، یہ جال بْن رہے ہیں تاکہ کوئی راستہ نکل سکے۔
بہرحال ان بیانات کا تجزیہ کیا جائے تو اس وقت رسہ کشی اقتدار کی چل رہی ہے جبکہ ملک کوبہت سے بحرانات کا سامنا ہے جن کا حل خود سیاسی جماعتوں کوآپس میں بیٹھ کر نکالنا ہوگا مگر المیہ یہ ہے کہ وہ تیسری قوت کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اپنے لئے راستہ نکالنے میں لگے ہیں، اس سے مسائل بڑھیں گے سیاسی خلیج اور بدترین اختلافات کو مل بیٹھ کر حل کرنا ضروری ہے ۔
پارلیمان، پاک فوج، عدلیہ اپنے آئینی حدود میں رہ کر کام کریں تب ہی مشکلات اور مسائل حل ہونگے وگرنہ نظام اسی طرح چلتا رہے گا تو بحرانات کبھی حل نہیں ہونگے اورعوام اس سیاسی جنگ میں پستی رہے گی۔
ملک میں بحرانات، سیاسی جماعتوں کی نظریں تیسری قوت پر، کمزور پارلیمانی نظام عدم استحکام کی وجہ!
وقتِ اشاعت : July 27 – 2024