|

وقتِ اشاعت :   July 29 – 2024

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان میرسرفراز بگٹی نے کہاہے کہ بلوچستان کے لوگ سب سے زیادہ محب وطن ہیں ایک مخصوص ٹولہ ہے جو ریاست اور عوام کے درمیان فاصلہ پیدا کرنا چاہتا ہے، حکومت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کو مذاکرات کی دعوت دیتی ہے

وہ ہمارا ایک حق تسلیم کریں کہ حکومت کے پاس احتجاج کو آرگنائز کرنے کا اختیار ہے ہم انکی ہربات مانیں گے کسی بھی جتھے کو بلوچستان کی سڑکیں بند کرنے کی اجازت نہیں دیں گے

حکومت کی طرف سے اپوزیشن کو بھی اختیار ہے کہ وہ مذاکرات میں کردارادا کرناچاہئے تو ضرور ادا کرے، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لئے جذباتی تقاریر کرنے والے پنجابیوں اور بلوچوں کے مخبر کے نام پر قتل پر جذبات کا اظہار یا قرار داد کیو ں نہیں لاتے۔ یہ بات انہوں نے پیر کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اورخواتین ارکان بلوچستان اسمبلی کیلئے سوشل میڈیا پر جو غلط زبان استعمال کی گئی ہے اس کی ہم سب مذمت کرتے ہیں بی وائے سی کے لوگ سوشل میڈیا پر خواتین ارکان کو گالم گلوچ کر رہے نیشنل پارٹی کے رہنما اشرف بلوچ کے گھر پر پیش آنے والے واقعہ کی تحقیقات کروائیں گے

ہم ہر اس سیاسی رہنما پر کارروائی کے خلاف ہیں جو پرامن ہو۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا میڈیا انگلستان کے سینیٹر بلوچ یکجہتی کمیٹی پرتو بات کر رہے ہیں لیکن یہ لوگ بلوچستان میں پنجابیوں کے قتل،بلوچ کو مخبر بناکر مارنے،شابان میں کئی روز سے اغواء ہونے والے معصوم شہریوں کے لئے جذباتی تقاریر کیوں نہیں کرتے وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ڈاکٹرماہ رنگ سے ہمارا تحریری معاہدہ ہوا ہے جس میں انہوں نے حکومت سے اتفاق کیا ہے کہ وہ جب بھی دھرنا دیں گے جلسہ کریں گے انتظامیہ سے اجازت لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے گوادر کے جلسے کو ڈیرہ بگٹی یا پشین منتقل کرنے کا نہیں کہا تھا حکومت نے جلسے کو تربت یا گوادر میں جیڈا کے مقام پرکرنے کی تجویز دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ بلوچستان کا مرکزی شہر،خضدار بلوچستان کا درمیانہ مقام ہے لیکن ان دونوں سے ہٹ کر گوادر ایک کونے میں ہے تاہم یہاں پھر بھی جلسہ کرنے کی کیا ضرورت ہے اور28جولائی کی گرم ترین تاریخ کا چناؤ صرف اور صرف اس لئے کیا گیا ہے کہ اگست میں سی پیک کا دوسرامرحلہ شروع ہونا ہے اور گوادرایک بہت بڑا وفدآرہا ہے اس لئے جلسے کو مرین ڈرائیو پر ہی کرنے کی ضد کی گئی انہوں نے کہا کہ پرامن لوگ منہ کیوں چھپاتے ہیں ایف سی پر فائرنگ کیوں کرتے ہیں آج گوادر میں ایک لانس نائیک شہید ایک لیفٹیننٹ کی آنکھ ضائع ہوئی ہے 16اہلکار زخمی ہوئے ہیں پاکستان کے خلاف منظم سازش اور انٹیلی جنس وار کی جارہی ہے دانستہ یا نادانستہ طور پر سیاسی لوگ بھی یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں کہ ملک کے خلاف سازش ہورہی ہے میں اپوزیشن کو اختیار دیتا ہوں کہ وہ بلوچ یکجہتی کمیٹی سے مذاکرات کرلیں کیا سیاسی جماعتیں صرف حکومت پر تنقید اور ریاست مخالف بیانات دینے کیلئے ہیں ہم پرتشدد لوگوں کو جتھوں کی صورت میں قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔انہوں نے کہا کہ کیا ہم اپنی سیاسی ساکھ کیلئے ریاست کے مفادات پرسمجھوتہ کریں

سیاسی لوگوں کے بیانات اور تنہائی میں ہونے والی باتیں الگ ہوتی ہیں سیاسی ساکھ ریاست سے زیادہ نہیں ہے پیپلز پارٹی ہمیشہ جمہوریت پریقین رکھتی ہے اور جمہوری اقدار کے تحت پرامن لوگوں کی حفاظت بھی کرتی ہے تاکہ بچے اسکول جاسکیں کیا ہم پرتشدد لوگوں کو ہار پہنائیں بلوچستان کے لوگ سمجھ چکے ہیں کہ انکی ترقی پاکستان کے ساتھ ہے کیا بشیر زیب جناح روڈ پرآسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو اپنی آواز بناتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پرامن رہنا تھا تو تربت میں جلسہ کرلیتے حکومت نے انہیں تمام سہولیات دینے کی پیشکش بھی کی تھی وی وائے سی پرامن نہیں تھی اور وہ بلوچستان کی ترقی کوسبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا اس حد تک بے لگام ہوچکا ہے کہ کوئی بھی کچھ بھی لکھ دیتا ہے ہتک عزت کے قوانین لانے کی ضرورت ہے کہا گیا کہ بلوچستان بندہے آج ژوب،لورالائی،رخشان سمیت دیگر تمام علاقے کھلے ہیں صرف چندایک مقامات پر احتجاج ہے 5بار بلوچستان پر فوج کشی کا بیان حقائق کے منافی ہے بلوچستان میں کبھی فوج کشی نہیں کی گئی اسی طرح قیام پاکستان کے وقت ریاستوں کے حقائق بھی توڑمروڑ کر پیش کئے جاتے ہیں پاکستان بننے اور بلوچستان کی ایک خوبصورت کہانی ہے جب ہم وہ سناتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ سرکاری موقف ہے

کیا ہم اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو سپورٹ نہ کریں اور ”را“ کے ایجنٹ بن جائیں ایف سی کو صوبائی حکومت نے ریکوزیٹ کیا ہے اور یہ پہلی بار نہیں اس سے پہلے بھی ہوچکا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ فورسز اورعوام کو آمنے سامنے لانے والے کون ہیں سی پیک،گوادر کو روک کرکہتے ہیں کہ ہم تو پرامن ہیں کل کوئی اسمبلی کے باہرآجائے گا اوراجلاس نہیں ہونے دے گااور کہے کہ ہم تو پرامن ہیں کیا ہم اسے تسلیم کرلیں گے جو لوگ بھی کردارادا کرنا چاہتے ہیں وہ آئیں مذاکرات کریں ہم صرف ایک بات کہتے ہیں کہ احتجاج کرنا سب کا حق ہے لیکن اس احتجاج کو آرگنائز کرنا حکومت کا اختیار ہے اگر بلوچ یکجہتی کمیٹی ہمارے صرف اس مطالبے کو مان لیتی ہے تو ہم انکے ہر مطالبے کو ماننے کیلئے تیار ہیں۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ مولانا ہدایت الرحمن کو گوادر کے مسئلے پر اعتماد میں نہ لینے پر معذرت خواہ ہیں ہمیں انہیں اعتماد میں لینا چاہئے تھا۔انہوں نے کہا کہ پنجابیوں کے قتل،اغواء پرکیوں اسمبلی جذباتی نہیں ہوتی اور ان کے لئے کیوں قرار داد نہیں لائی جاتی بلوچستان اب مزید قتل و غارت کاشکار نہیں ہوسکتاہم حکومت کی رٹ قائم کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہاکی گراؤنڈ میں احتجاج کا مقام مقرر کیا ہے وہاں لکھ کر لگائیں گے کہ حکومت مظاہرین کے پاس آئے گی اور بات کریں گی لیکن مظاہرین کی نیت کو بھی مدنظررکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان دلدل میں چل رہا ہے اور یہ ضرور آگے نکلے گا پاکستان کو توڑنے والوں کو پتہ ہے کہ بلوچستان میدان جنگ ہے ہم نے ریاست اورنوجوانوں کے درمیان فاصلہ کم کرنا ہے اس میں اپوزیشن بھی ہماری رہنمائی کرے گڈگورننس کے ذریعے معاملات کو بہتر بنائیں گے ہم دعویٰ نہیں کرتے کہ دودھ اورشہد کی نہریں بہائیں گے مگر ایک سمت کا تعین ضرور کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ سب سے زیادہ محب وطن ہیں ایک مخصوص ٹولہ ہے جو ریاست اور عوام کے درمیان فاصلہ پیدا کرنا چاہتا ہے سوشل میڈیا،تشدد اور معاشرے میں افراتفری کے ذریعے بلوچستان میں حالات خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے

ہم کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے حکومت نے احکامات دیئے تھے کہ گولی سے کوئی نہ مرے فورسز نے فائرنگ نہیں کی جس طرح کی گولیاں استعمال ہوئیں وہ اسلحہ تو پاکستان کی فورسز استعمال ہی نہیں کرتیں۔ انہوں نے کہا کہ جو بات کرنا چاہتا ہے ریاست بات کرنے کیلئے تیارہے مگرہم قتل و غارت گری کی اجازت نہیں دیں گے

بی ایل اے کے اپنے اعدادو شمار ہیں کہ انکے 400لوگ مارے گئے ہیں جبکہ انہوں نے خود ابتک 4ہزار سے زائد عام شہری شہید کئے جبکہ فورسز کے لوگ الگ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم ظالم نہیں بلکہ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونگے حکومت اور ریاست کے خلاف تقاریر کرکے سیاسی ساکھ بنانا ایک نیا طریقہ چل پڑا ہے مسنگ پرسنز پر کمیشن عدالتی احکامات پر بنایا جس میں حکومت اوراپوزیشن سے ارکان لئے اس پر رحمت صالح بلوچ نے جو جواب دیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بی وائے سی کو مذاکرات کی دعوت دیتی ہے وہ ہمارا ایک حق تسلیم کریں کہ حکومت کے پاس احتجاج کے مقام کا تعین کرنے کا اختیار ہے ہم انکی ہربات مانیں گے کسی بھی جتھے کو بلوچستان کی سڑکیں بند کرنے کی اجازت نہیں دیں گے حکومت کی طرف سے اپوزیشن کو بھی اختیار ہے کہ وہ مذاکرات میں کردارادا کرناچاہئے تو ضرور ادا کرے۔