کوئٹہ : بلوچستان نیشل پارٹی کے ممبر سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی و ضلعی صدر کوئٹہ غلام نبی مری، جنرل سیکریٹری میر جمال لانگو، سینئر نائب صدر ملک محی الدین لہڑی، نائب صدر طاہر شاہوانی ایڈوکیٹ، ڈپٹی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر علی احمد قمبرانی، جوائنٹ سیکریٹری اسماعیل کرد، انفارمیشن سیکریٹری نسیم جاوید ہزارہ، فائنانس سیکریٹری میر اکرم بنگلزئی، لیبر سیکریٹری ملک عطا اللہ کاکڑ، خواتین سیکریٹری محترمہ منورہ سلطانہ، کسان ماہیگیر سیکریٹری ملک ابراہیم شاہوانی، ہیومن رائٹس سیکریٹری پرنس رزاق بلوچ اور پروفیشنل سیکریٹری میر مصطفی سمالانی نے اپنے ایک بیان میں بارکھان رکھنی پولیس کی جانب سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے ضلعی رہنما صدیق کھیتران، گلزار عرف راجہ جان کھیتران، این ڈی پی کے مرکزی رہنما ثنا اللہ کھیتران، سلال کھیتران، ہوپ یوتھ کے سرگرم سماجی کارکن و صحافی فاروق کھیتران، شعیب کھیتران، میرجان کھیتران، حفیظ کھیتران، شریف و دیگر کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ
حکومت کے ظلم و جبر اور ناروا عمل کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانا سیاسی کارکنوں کا آئینی حق ہے پولیس کی جانب سے احتجاج اور ہڑتال کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ منتشر کیا جا سکتا ہے
مگر ان کے خلاف ایف آئی آر کاٹنا جمہوری احتجاج کو نہ ماننے اور انسانی حقوق کی سنگین پامالی کے مترادف ہے جبکہ رکھنی کا احتجاج اور ریلی پرامن تھا کارکنوں کی جانب سے کوئی غیر قانونی یا غیر شائستہ عمل سر زد نہیں ہوا تھا لیکن پھر بھی انہیں انتقامی کاروائی کا نشانہ بناتے ہوئے ایف آئی آر چاک کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے بھر پور عوامی احتجاج سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر بلوچستان بھر میں صوبائی حکومت کی زیادتیوں، ناانصافیوں اور بلوچ کش پالیسیوں، نہتے معصوم بلوچ عورتوں بچوں نوجوانوں پر پرتشدد فائرنگ کرکے زخمی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قائدین سمیت سینکڑوں افراد کو گرفتار کرکے ٹارچر سلوں میں پابند سلاسل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ بی این پی بارکھان کے ضلعی رہنما راجہ جان کو پولیس نے رات دو بجے ان کے گھر سے گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا ہے جسکی پارٹی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔
انہوں نے بی این پی کے کارکنوں اور دیگر کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت، بلوچستان کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی حکمت عملی ترتیب دے
اس طرح طاقت کے استعمال اور نہتے عوام اور سیاسی کارکنوں کے خلاف قانون کے غلط استعمال سے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید پیچدگی کی طرف جائیں گے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پچھلے ستر سالوں سے حکومت کی جنگی پالیسی ناکام رہی ہے اور آج بلوچستان کا ہر فرد حکومت کے خلاف سرآپا احتجاج بن گئے ہیں بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور اسے سیاسی طریقے سے حل کیا جائے۔