کوئٹہ: مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنماء سابق وفاقی وزیر انجینئر خرم دستگیر نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے ہمارے پاس علاج ہے
مگر ہم تشخیص نہیں کر پا رہے ہیں بلوچستان میں بے روزگاری ہے معاشی مسائل کا نہ ہونا مسئلہ ہے 18سال ہوگئے نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کو ان 18سالوں میں پاکستان کے سیاسی نظام میں 2رسپانڈ کئے ہیں
ایک تو 2009کا ساتویں این ایف سی ایوارڈ تھادیگر صوبوں نے ملکر اپنا حصہ بلوچستان کو دیا ہماری حکومت نے ڈاکٹر مالک بلوچ کے ذریعے کوشش کی کہ بلوچستان کے تمام مسائل کا سیاسی حل نکا لا جائے وہ سیاسی حل کیوں نہیں نکل رہا ہے
اس کا ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں نمائندگی کا فقدان ہے میں اس بات پر حیران ہو کہ بلوچستان کے عوام جب احتجاج کرتے ہیں تو وہ اسلام آباد کی طرف رخ کرتے ہیںکوئٹہ کی طرف لانگ مارچ کیوں نہیں کرتے ہیںان خیالات کااظہارانہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت بلوچستان کو اپنے وسائل فراہم کررہا ہے بلوچستان میں ہماری حکومت میںبہت سے ترقیاتیاتی منصوبوں پر کام ہوئے ہیں بلوچستان کے اکثر لوگوں کا دار ومدار ایرانی پٹرول پر ہے اور یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں ہندوستان کا عمل دخل ہے لو گ کہتے ہیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی گوادر انٹر نیشنل ایئر پورٹ کا افتتاح نہیں کرنے دے رہے ہیں
اور کلبھوشن یادیو کہاں سے پکڑا گیا تھا آج یہ تمام مسائل مکس ہوگئے ہیں میں تجویز دیتا ہوں کہ وفاقی حکومت اور بلوچستان حکومت ان تمام مسائل کو حل کرسکتے ہیں
بلوچستان کے ایم این ایز اسلام آباد میں موجود ہیں بلوچستان کو 15سالوں میں این ایف سی ایوارڈز کے تحت ہزاروں ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے دینے کے باوجود بلوچستان میں تبدیلی نہیں آئی ہے
اس کا جواب اسلام آباد کے بجائے کوئٹہ کو دینا چاہیے بلو چستان کے مسائل کا حل کیوں اسلام میں ڈھونڈا جاتا ہے کوئٹہ میں کیوں ان مسائل کی حل کی تلاش کیلئے نہیں ڈھونڈتے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے سیکورٹی فورسز کو ہٹانے سے سئلہ حل نہیں ہوگا نوشکی میں پنجابی کا شناختی کارڈ چیک کرکے شہید کیا گیا تو اس طرح پر تشدد واقعات جنم لیں گے ۔