|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2024

میر غوث بخش بزنجو نے طویل قید و بند کی زندگی گزاری۔ وہ ہمیشہ اپنے اصول، قول و فکر اور نظریے سے جڑے رہے۔

میر بزنجو کی سیاست کی سمت ہمیشہ یک طرفہ رہی۔

اُنہوں نے جمہوریت کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ جمہوریت کو پروان چڑھایا۔ بلوچ لیگ استمان گل، قلات نیشنل پارٹی نیشنل عوامی پارٹی، پاکستان نیشنل پارٹی، ایم آرڈی، اے آرڈی کا پلیٹ فارم ہو یا کوئی مزدور تحریک، ٹریڈ یونین، طلبا تحریک، ڈیموکریٹک فورم سے لیکر ہر اس جدو جہد میں اپنا حصہ ڈالا جہاں جمہوریت اور خود مختاری کی بات کی گئی۔

بابا بزنجو ایک ایسی شاندار تاریخ رکھتے ہیں جس کا ہر صفحہ جمہوریت کا پرچم لیے لہرا رہا ہے۔

انہوں نے جوسختی اور تکالیف دیکھیں انہیں پرے (جنکا کچھ ذکر آگے کیا جائے گا) رکھ کر معاشرے کے اندر اپنا نمایاں کردار ادا کرتے رہے گو کہ اُن کے سامنے اپنوں سے لیکر حکمرانوں تک ہر قسم کی رکاوٹ کا سامنا رہا مگر وہ سہتا گیا اور آگے بڑھتا گیا ۔

اُن کی زندگی کا نام ہی جدو جہد ہے۔ ورنہ تاریخ اُنہیں آج ایک با اصول شخصیت کے طور پر کیونکر یاد کرتی، بہت یاد آؤں گا۔۔۔ ڈھونڈیں تجھے کہاں ہو بابا۔

کتنے دکھ دیے تمہیں، کتنی اذیتیں دیں آپ کو، کتنے تمہارے خلاف بولے، کتنا تمہارے خلاف لکھے، مگر آپ نے کچھ نہیں کہا۔

خندہ پیشانی سے قبول کرتے رہے کچھ کہے بغیر آگے بڑھتے رہے۔

مخالفین سے بھی ایسی محبت آپ کو بابا بزنجو سے ہی ملے گی۔

یہ میرے سیاسی وارث ہیں ایسی باتیں بابا بز نجو بول سکتے ہیں اتنے کشادہ دل کے مالک، اتنی بصیرت، اتنا وژن چہرے پہ اتنا نور اور مسکراہٹ ’’جو سجا ہے ان کے رخ پر، یہ تمہارا خون ہے لوگو

۔با بابز نجو کی سیاسی جدو جہد علی گڑھ یونی ورسٹی کے بعد جب کراچی تشریف لائے وہاں سے شروع ہوتی ہے۔ اس سے پہلیکانگریسی خیالات کے حامل ابوالکلام آزاد اور نہرو جیسی شخصیات کے قریب رہے۔ جد و جہد کے اس سفر میں آپ ہمیشہ سرخ رور ہے۔ اور ڈٹ کر مارشلا ئی آمریت کا مقابلہ کیا۔ 1957ء میں نیپ کی تشکیل اور 1958ء کو سکندر مرزانے مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کیا۔ اسمبلیاں توڑ دی گئیں اور ظلم وستم کا نہ ختم ہونے والا دور شروع ہوا۔

ایوبی آمریت کا دور۔ ون یونٹ کا قیام، سیاسی پابندیاں، گرفتاریاں، مار دھاڑ، پکڑ دھکڑ، آئین کی پامالی، فسادات کا دور جس نے پورے ملک کو اندھیرے میں دھکیل رکھا تھا۔ جس کی گرفت روز بروز مضبوط ہوتی جارہی تھی، تو دوسری طرف نیپ کے سر کردہ لیڈراں پابند سلاسل ظلم و جبر اور مارشل لائی گرفت میں مگر ایسے دستور کو صبح بے نور میں نہیں مانتا۔ کا سلسلہ بھی چل رہا تھا۔ جہاں بزنجو اور ان کے رفقاء ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہے تھے۔

اذیت اور تشدد بھی ان کا راستہ نہیں روک سکا۔ جب اور جہاں موقع ملتاون یونٹ کے خلاف صف اول کا کردار اور حکمرانی کے خلاف جمہوریت کا پرچم بلند کیے ہوئے میدان عمل میں عملی کردار ادا کرتے رہے ۔ (1957ء میں نیپ کی تشکیل اور جیل آباد ہونے لگے قلی کیمپ میں اذیتیں زور پکڑنے لگیں۔ نواب نوروز خان سے لے کر بزنجو گل خان نصیر و دیگر رفقاء آمریت میں سخت ترین دن گزار رہے تھے۔

ہمارے بابا نے ہر مشکل دور میں بھی اپنے اصولوں پر نہ سودا بازی کی بلکہ اپنے موقف کے ساتھ جہد مسلسل کو جاری رکھا۔ مارشل لائی دور میں تو بابا بزنجو کو پاکستان کی مختلف جیلوں (قلی کیمپ، کوئٹہ ڈسٹرکٹ جیل، مچھ، حیدر آباد، ساہیوال، گجراں والا وغیرہ) میں بھیج دیا جاتا تھا۔

یا کہ اُن پر پابندی لگا کر مکران بدر، مستونگ بدر، اسلام آباد ریسٹ ہاؤس، خضدار کے جہاں کہیں بھی سرگرمیاں کرنے کی کوشش کرتے تو گرفت میں لے لیا جاتا۔ بابا بز نجوااپنے دیگر رفقاء کے ہمراہ جب کبھی جیل سے رہا ہوئے یا کہ پابندیوں میں نرمی لائی گئی وہ متحرک نظر آتے، جلسوں میں میٹنگوں میں، دوروں پر، جیل کے اندر ساتھیوں کی رہائی کے لیے تگ و دو نواب نوروز خان کے لیے ذاتی حیثیت سے وکیل اور جب وکالت نامے پر دستخط کرنے کا قت آیا تو بابا بزنجو پھر گرفتار۔

بابا بز نجونے پوری زندگی اسی سفر میں اپنا سفر جاری وساری رکھا، گویا انہیں آرام کرنے کا وقت بھی نہیں ملا۔ واقعی با با بز نجوسیاست کو عبادت سمجھ کر کرتے رہے اور اپنوں سے طعنے کھاتے رہے۔ لوگ انہیں بابائے مذاکرات کہتے رہے اور وہ بابائے استمان بابائے بلوچستان کہلائے اور اپنی زندگی کے اس سفر میں پیچھے مڑ کر کبھی نہیں دیکھا۔
بڑا کھٹن ہے راستہ جو آسکو تو ساتھ دو
یہ زندگی کا فاصلہ مٹا سکو تو ساتھ دو
آمریت کے یہ وہ کٹھن دور تھے جو اس کٹھن زندگی کا فاصلہ طے کر سکا وہ ساتھ دیتا گیا۔ کیونکہ نواب کالا باغ، بھٹو جیسے شخص جو نہ صرف 1965 ء کی جنگ کا ذمہ دار بلکہ 1971ء میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے بھٹو کا کردار بھی واضح ہے۔

اور آگے چل کر انہوں نے بلوچستان اور نیپ حکومت کے ساتھ جو کیا اُسے تاریخ دہراتی رہے گی۔ بھٹو کی جاگیر داریت، انا پرستی نے اُسے جس مقام پر پہنچایا وہ سب اُس کا اپنا کیا ہوا تھا۔ ایوبی آمریت ہو، 1965ء کی جنگ ہو یا کہ 1971 ء کے سنگین حالات جس نے بنگلہ دیش کو جنم دیا۔ بات یہاں آکر نہیں رکتی بلکہ ضیاء کی آمریت کا دور بھی نیپ کے رہنماؤں نے سہا جس میں بھٹو نے بلوچستان اور ان رہنماؤں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا۔ اس کٹھن دور میں اگر میں حبیب جالب کا ذکر نہ کروں تو زیادتی ہوگی۔

ایسے دستور کو نہ ماننے اور صر صر کو صبا۔ بندے کو خدا کیا لکھنا انہی دور کی، جبر ظلم اور بر بریت سے جنم لیا ہے۔ جہاں ظلم ہوگا تو وہاں حبیب جالب جیسے انسان بھی پیدا ہونگے جنہوں نے ہر آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بھٹو دور کی ظلم و بربریت جاری تھی، حبیب جالب اپنے دوستوں کے ہمراہ شام کے وقت کراچی کی سڑکوں پر اس گردش میں تھے کہ کہیں سے شاید کچھ مل جائے، اسی دوران میر رسول بخش تالپور صاحب کا فون گورنر ہاؤس سے آجاتا ہے جو حبیب جالب کو گورنر ہاؤس آنے کے لیے اسرار کر رہے ہوتے ہیں۔

سنیے حبیب جالب کا جواب بھٹو نے نیپ کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا اور آپ کہتے ہیں میں گورنر ہاؤس آجاؤں اس کے بعد بھٹو یہی کہیں گے کہ جالب ایک دو پیگ پینے آئے تھے۔ میں تو آپ کو بھی یہی مشورہ دوں گا آپ اس قید خانے سے نکلیں زیادہ عرصہ نہیں رہ پاؤ گے اور آگے چل کر ایسا ہی ہوا۔

عطاء شاد نے سچ کہا ہے یہ عمر بھر کا ساتھ ہے آسکوتو ساتھ دو اور ہمارے ا برین پوری زندگی اسی جدو جہد، سچ اور جمہوریت کی جنگ لڑتے رہے۔ بابا بزنجو اوران کے رفقاء کے خلاف مارشل لا ئی جنگ جاری تھی ون یونٹ توڑ دو والی 50 روپے کے نوٹ جو بزنجو کی جیب سے برآمد ہوئے تھے انہیں اذیت گاہ تک لے جانے کے لیے کافی تھے۔ ویسے بھی وہ کہیں باران اذیت گاہوں میں رہ چکے تھے مگر اس بار کوئٹہ جیل سے 14 سال کی سزا کے بعد ساہیوال جیل (منگری) منتقل کیے گئے۔ جیل میں انہیں سخت سے سخت اذیتیں دی گئیں۔ قیدخانہ جو کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا تھا کیڑے مکوڑوں سے بھرا ہوا تھا۔

بابابزنجواپنے سوانح عمری بی ایم کٹی کی کتاب میں کہتے ہیں ”سخت گرمی میں جہاں مجھے رکھا گیا تھا وہ حشرات سے بھرا ہوا تھا، لگتا تھا برسوں سے یہ بھوکے ہیں۔ کیڑے مکوڑوں کے بیچ میرا خون انہیں خوراک فراہم کرتارہا۔ جس سے میرا وزن کم ہو گیا تھا۔ ایوب خان شاید اپنی شکست کا بدلہ لے رہے تھے جو کچھ ان سے ہوا کرتے رہے اس کے بعد مجھے اچانک سرگودھا جیل منتقل کیا گیا وہاں پھر قید تنہائی، اسی طرح کا ہی سلوک 1959-1958ء میں قلی کیمپ میں ہمارے ساتھ بہیمانہ سلوک روا رکھا گیا ۔

البتہ سرگودھا جیل میں کا کروچوں سے جان چھوٹ گئی تھی۔ انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہاہے:
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا توجم جائے گا
بزنجو جیل میں تھے کہ نیپ کے درمیان آپس میں اختلافات شدت اختیار کرتے چلے گئے اور آخر کار بھاشانی کی جگہ ولی خان نے لے لی یہ وہ دور تھا جہاں مار شل لائی ظلم و ستم عروج پر تھا تو دوسری طرف بائیں بازو کی قوتیں بھی اپنی صفوں کے اندر مضبوطی کے ساتھ جڑی ہوئی برسر پیکار تھیں۔

ایوبی آمریت کو خطرہ لاحق ہو گیا اور حبیب جالب کی شاعری اس میدان جنگ کو مزید ہوا دے گئی۔ ایوبی گول میز کانفرنس بھی کام نہ آئی البتہ عبدالصمد اچکزئی اور جی ایم سید کا راستہ یہاں سے الگ ہو گیا۔ ایوب خان کی جگہ یحییٰ خان نے لی اور مری میں ایوب کی جگہ یحییٰ خان کی تصویر آویزاں ہوگئی جہاں ایک تقریب کی صدارت فیض احمد فیض کر رہے تھے اور اسٹیج پر حبیب جالب کو بلایا گیا تو انہوں نے کہا:
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
طویل مارشل لائی دور کے بعد 1970ء کو الیکشن ہوئے۔ یوں نیپ کو کامیابی ملی اور مشرقی پاکستان بازی لے گیا۔ اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوگئی اور بھٹو تخت نشین ہوئے۔

نیپ کی حکومت بھی ختم کر دی گئی اور پوری قیادت دوبارہ جیل میں ڈال دی گئی۔ جیل سے رہائی کے بعد نیپ کے لیڈراں اختلافات کا شکار ہو گئے اور ہر کسی نے اپنی پارٹی تشکیل دے دی۔ کچھ ملک کے اندر کچھ ملک سے باہر چلے گئے۔ بابابزنجو نے آخری عمر تک یہیں رہ کر اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

ضیاء کے مارشل لا کا سامنا کیا قید و بند اور پابندیوں کا سلسلہ برقرار ہا۔ 1988، کے الیکشن میں دونوں سیٹوں سے ہار گئے اور نوجوانوں کو اپنا سیاسی وارث قرار دیا۔ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوئے اور مرتے دم تک اسکا مقابلہ کیا ،بستر مرگ تک جمہوری جد و جہد جاری رکھی انکے یہ الفاظ ’’میں نے وطن اور اہل وطن سے عشق کیا ہے اس میں کہاں تک کامیاب رہا اس کا فیصلہ عوام کرینگے۔ ‘‘بابا بزنجو نے اپنی زندگی کا آخری سفر بھی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں (کراچی سے نال تک) کے ذریعے کیا۔
چلو اس کے راستے پر میرے ہمدمو، رفیقو
یہ جو تخت پر بیٹھیں ہیں تمہیں ذلتیں ہی دیں گے۔