کوئٹہ : تحریک تحفظ آئین پاکستان کے زیر اہتمام بعنوان’’ ملک کے انتشار کی سیاسی وآئینی تاریخ ، حالیہ ہمہ جہت بحرانوں سے نجات وحقیقی آزادی اور پاکستان کے مستقبل ‘‘کے تحت پریس کلب کوئٹہ میں سیمینار زیر صدارت پشتونخوامیپ کے مرکزی سیکرٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال منعقد ہوا۔
سیمینار سے عبدالرحیم زیارتوال ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی لیبر سیکرٹری موسیٰ بلوچ، پی ٹی آئی کے صوبائی صدر دائود شاہ کاکڑ، مجلس وحدت المسلمین کے نائب صوبائی صدر علامہ علی حسنین حسینی،
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حبیب اللہ ناصر ایڈووکٹ، سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری عمر خان بابر، مزدور رہنماء کامریڈ صوفی عبدالخالق بلوچ، پروفیسر شوکت ترین ، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ محمد حسن مینگل ،
پشتونخوا لائرز فورم کے سیکرٹری ایڈووکیٹ اسد خان اچکزئی ،سابق صدر ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن عبدالمجید دومڑنے خطاب کیا ۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض پشتونخوامیپ کے صوبائی سیکرٹری کبیر افغان نے سرانجام دیئے۔
سیمینار میں اتحاد میں شامل سیاسی جمہوری جماعتوں کے رہنمائوں،کارکنوں ، دانشوروںاور مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی۔
مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک اس وقت ہمہ گیر سیاسی، معاشی ، آئینی اور معاشرتی بحرانوں میں گر چکا ہے جس کی بنیادی وجہ ملک میں 77سال سے جاری مقتدرہ کی سیاست میں غیر آئینی مداخلت ، حقیقی سیاسی جمہوری قوتوں کا راستہ روکنے ،
آئین وقانون کی حکمرانی سے انکار ، ملک میں جمہور کی رائے کا احترام نہ کرنے اور ایک خودمختار پارلیمنٹ کی تشکیل سے انکار پر مبنی پالیسیاں ہیںاور موجودہ صورتحال سے نجات فوری طو رپر تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے قومی حکومت کی تشکیل اور ملک میں از سر نو ہر قسم کی مداخلت سے پاک وصاف شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن کا انعقادہے ۔
مقررین نے کہا کہ 23مارچ 1940کی قرارداد کی بنیاد پر یہ ملک بنا تھا جس کے مطابق یہ ملک خودمختار اکائیوں پر مشتمل ہوگا لیکن پاکستان کے قیام کے بعد 1940کے قرار داد کی اصل روح سے انکار کیا گیا ۔
خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی جدوجہد انگریز کیخلاف تھی انگریز نے خان شہید کو قومی سیاسی معاشی اور سماجی حقوق کے مطالبے کی بنیاد پر جیلوں میں قید رکھا لیکن پاکستان بننے کے بعد خان شہید کو کس جرممیں جیل میں رکھا گیا ؟
حقیقی آزادی کیلئے سب سے پہلے جدوجہد خان شہید نے رکھی ہے۔ اسی طرح پاکستان کو مسلسل 9سال تک بے آئین رکھا گیا،
ہندوستان میں ایک سال کے اندر ملک کو نیاآئین دیا لیکن ہم نے 1949میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی بنائی جس نے نیا آئین بنانا تھا اس کمیٹی نے آئین کیلئے تین فارمولے تجویز کیئے اور آخری فارمولے کو قبول کیا گیا
لیکن اکتوبر میں آئین ساز اسمبلی توڑ دی گئی اور 1955ء میں ون یونٹ قائم کرکے پریئٹی کا غیر قانونی اصول قائم کیا گیا ۔ اور 1956میں جو آئین بنایا گیا اس کو بھی ختم کیا گیا ۔10اکتوبر 1958کو جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگایا اور1962کا نام نہاد آئین دیا گیا جس میں تمام بنیادی ،شہری حقوق غصب کیئے گئے تھے۔ عوامی مطالبے اور احتجاج کے نتیجے میں جنرل ایوب خان کو مستعفی ہونا پڑا اوراقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کی ۔
1970میں ملک میں انتخابات کرائے گئے جس میں جیتنے والی پارٹیوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا اور نتیجے میں یہ ملک دولخت ہوا ۔
اور پھر 1973کے آئین کی تشکیل کی گئی لیکن اس آئین میں صوبوں کے اختیارات مرکز کے پاس تھے لیکن بھٹو صاحب نے کہا کہ کنکرنٹ لسٹ کو دس سال میں صوبوں کے حوالے کیا جائیگا لیکن2010تک نہیں ہوسکااور صوبوں کو صوبائی خودمختاری سے غیر آئینی طو رپر محروم رکھا گیا ہے
۔1977جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا اور آئین کو پائمال کرتے ہوئے ملک پر آمریت مسلط کی ۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشلاء لا کے خلاف جمہوری قوتوں نے تحریک بحالی جمہوریت کی بنیاد ڈالی ۔
جنرل ضیاء الحق نے تمام اختیارات آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے اپنی ذات میں جمع کیئے اور پارلیمنٹ کو ربڑ سٹیمپ بنادیا ۔.
مقررین نے کہا کہ آرٹیکل 6کا استعمال اگر کسی کے خلاف ہوگا تو وہ ملک میں مارشل لاء لگانے والے جرنیلوں پر لاگو ہوگا جنہوں نے آئین ، پارلیمنٹ ، جمہور کی رائے اور قانون کی حکمرانی کو بدترین طریقے سے پائمال کیا اور مسلسل اقتدار میں رہ کر جمہوریت پر شب خون مارتے رہے ۔
آج آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کیخلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کی گئی ہے
کہ انہوں نے سیاسی امور میں مداخلت کی ہے ہم سیمینار کی توسط سے خواجہ آصف سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت جو آپ کے پاس ہے کیا یہ حکومت سیاست میں مقتدرہ کی مداخلت کے نتیجے میں قائم نہیں ہوئی ؟
مقررین نے کہا کہ 8فروری کے الیکشن میں بدترین دھاندلی ہوئی ہے اور جس بھونڈے انداز میں یہ دھاندلی کی گئی اس نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی مسترد کرتے ہوئے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ مقررین نے کہا کہ گزشتہ د و دنوں میں جو دہشتگردی کے واقعات ہوئے جو دھماکے ہوئے ان میں بے گنا ہ لوگ شہید وزخمی ہوئے لیکن کسی بھی واقعہ کا کوئی ملزم نہیں پکڑا جارہا ہے یہ دہشتگرد کہاں سے آئے اور کہاں گئے یہ حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی گرفت سے بالکل آزادنہیں ہیں ، پاکستان کی تمام دہشتگردی کا ذمہ دار جنرل ضیاء الحق ہے ۔ مقررین نے کہا کہ لوٹ مار ، کرپشن وکمیشن ، پرسنٹ ہر طرف جاری ہے جس پر قابو پانے کی بجائے معاشی بدحالی کا حل نجکاری میں نکال رہے ہیں یہ ملک کا سودا کرنے کے مترادف ہے ۔
ملکی اداروں کو مفلوج بنادیا گیا ہے ، ملک کی زرعی پیدوار آدھے سے زیادہ گھٹ چکا ہے ، صنعتی پیداوار کے اکثر کارخانے بند ہوچکے ہیں مزید بند ہورہے ہیں ، تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح بیروزگاری اور مہنگاجی میں بدترین اضافہ ہوتاجارہا ہے ۔
مقررین نے کہا کہ سیاسی جمہوری پارٹیوں اور ان کے رہنمائوں کو تحریر وتقریر کی آزادی تک نہیں ، پارلیمان میں بھی ان کی تقاریر کو سنسرکیا جاتا ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ مقررین نے کہا کہ سرکاری جشن بنانا صرف چند آفیسران ،وزراء تک محدود ہے عوام جب جشن بنائیگی پھر جشن آزادی ہوگی اور وہ تب ہوگا جب ہمیں اپنے آئینی حقوق دیئے جائینگے ۔
مقررین نے کہا کہ گزشتہ دنوں جو بنگلہ دیش میں ہوا یہ ملک کی تاریخ کیلئے دوسری مثال ہے اگر ہوش کے ناخن نہ لیئے تو ملکی حالات اس سے بھی زیادہ بدتر ہونگے۔
آئین کی حکمرانی نہیں ہے اور ووٹ کا تقدس پائمال ہے ، قانون غیر موثر ہے جو غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر بناتا ہے ، آئین کی بالادستی وپارلیمنٹ کی خودمختاری تسلیم نہ کرنے والوں کو پھانسی دی جانی چاہیے۔ مقررین نے کہا کہ آج بھی ہمیں ہمار ے وسائل پر واک واختیار نہیں دیا جارہا ہے نہ پشتونوں اور نہ بلوچوں کو اپنی سرزمین پر تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی ان کے وسائل پر ان کی حق ملکیت کو تسلیم کیا جارہا ہے ۔ جو آواز حق کیلئے اٹھائی جاتی ہے اسے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مقررین نے کہا کہ افغانستان کی آزادی ، خودمختاری واستقلال کا احترام کرنا ہوگا وہاں ہر قسم کی مداخلت سے اجتناب کرنا ہوگا ۔
مقررین نے کہا کہ چند لوگوں کی خواہش پر ملک نہیں چلایا جاسکتا ہے ، ملک کے25کرورڑ عوام کی آزادی رائے حق دہی کا احترام کرنا ہوگا ، مسلط حکومتوں کا خاتمہ اورتین سے چار مہینے کیلئے قومی حکومت کی تشکیل دی جائے جس میں ہر سیاسی جمہوری پارٹی کی نمائندگی ہو اور پھر ملک میں از سرنو صاف شفاف غیر جانبدارانہ انتخابات منعقد کرائیں تاکہ عوام کے حقیقی نمائندے منتخب ہوکر نہ صرف ملک کو ہمہ جہت بحرانوں سے نکال سکے بلکہ عوام پر مسلط مہنگائی ، بیروزگاری ، بدامنی سے انہیں نجات دلاسکے۔
مقررین نے کہا کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ اب بھی حل طلب ہے آج بھی اس ناروا عمل کو ترک نہیں کیا گیا ، یہاں بنیادی حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کے پر غائب کردیا جاتا ہے ،
نوجوانوں کو اپنے والدین ، بہن بھائیوں سے دور کرکے ان پر بدترین تشدد کیجاتی ہے اس طرح کے ناروا عمل اور ناانصافیوں سے مزید نفرتیں پیدا ہونگی ۔لوگوں کو جبری غائب کرنا اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنا انسانیت کی توہین ہے سیاسی جمہوری مطالبات کرنا ہر قوم اور ہر پاکستانی کا انسانی حق ہے ۔
اسلام آباد کے حکمران حقیقی حکمرانی کو تسلیم نہیں کرتے ، صوبے کے معدنیات پر سب سے پہلا حق یہاں کے لوگوں کا ہے ۔ خصوصی سہولت سرمایہ کاری کونسل کا قیام ہی غیر آئینی وغیر جمہوری ہے یہ کونسل محکوم اقوام ومظلوم عوام کے وسائل کو لوٹنے اور اس پر ہاتھ صاف کرنے کیلئے بنایا گیا جس کو فوری طور پر ختم کیا جائے ہم اپنے عوام کے حقوق کومزید غصب نہیں ہونے دینگے۔
مقررین نے کہاکہ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے صدر محمو د خان اچکزئی کی قیادت میں آئین کی بالادستی ، پارلیمنٹ کی خودمختاری، آئین میں متعین شدہ دائرہ کار ودائرہ اختیار میں ہر ادارے کو اپنے فرائض کی انجام دہی پورے کرنے، ملک کو قوموں کی برابری کا حقیقی جمہوری فیڈریشن بنانے اور ملک کوہمہ جہت بحرانوں سے نجات دلانے ، عمران خان سمیت تمام سیاسی اسیران کی رہائی کیلئے جاری سیاسی جمہوری جدوجہد کو مزید تیز کرنا ہوگی ۔ صوبے کے مختلف اضلاع قلعہ سیف اللہ ، چمن ، سبی ، زیارت ، ہرنائی اورلورالائی میںبھی سیمینارز کا انعقاد کیا گیا جس سے تحریک تحفظ آئین پاکستان میں شامل سیاسی جمہوری پارٹیوں کے رہنمائوں، وکلاء، دانشوروں ودیگر مقررین نے خطاب کیا۔