|

وقتِ اشاعت :   August 18 – 2024

بلوچستان کا شمار ملک کے پسماندہ ترین صوبوں میں ہوتا ہے ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت یہاں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔

ایران سے منسلک کیچ بارڈر کی بندش کے باعث بے روزگاری میں مزید اضافہ ہورہا ہے اور سرحدی علاقے سے منسلک تاجر، ٹرانسپورٹرز، نوجوان طبقہ معاشی حوالے سے بہت زیادہ متاثر ہورہے ہیں کیونکہ ان کا ذریعہ معاش سرحد ی تجارت سے وابستہ ہے ۔

کیچ میں کوئی بڑی صنعت اور دیگر روزگار کے مواقع موجود نہیں۔

بارڈر ایریا میں اشیاء خوردونوش اور دیگر اشیاء ضرورت پر کم سے کم ٹیکس عائد کرکے ان کو تجارت کے لئے کھولنے کی بابت عملی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ وہاں بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہو اور علاقے کے عوام میں پائی جانی والی بے چینی کاخاتمہ ہوسکے۔

وفاقی حکومت کو چاہئے کہ بلوچستان کے سرحدی پوائنٹس میں اضافہ کرکے تجارت کی غرض سے مزید گیٹ کھولے تاکہ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آسکیں۔

سرحد پار سے مقامی لوگوں کو اشیاء خوردونوش سمیت دیگر اشیاء لانے کی اجازت دی جائے اس سے ایک تو بے روزگاری میں کمی آئیگی دوسرے لوگوں کے گھر کا چولہا بھی جلتا رہے گا۔

وفاقی حکومت بلوچستان میں سرحدی تجارت کو فروغ دے۔ ٹوکن سسٹم کے نام پر لوگوں کو تنگ کیا جاتا ہے اس کا خاتمہ کیا جائے۔

بلوچستان حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرکے بلوچستان کے بارڈر ایریاز میں تجارتی سرگرمیوں کو بحال کرائے۔

حکومت سرحدی تجارت کے حوالے سے اقدامات اٹھائے۔

گزشتہ روز کیچ کے ضلعی انتظامیہ نے مقامی تاجروں کو یقین دہانی کرائی کہ آئندہ چند روز میں سرحد کھولنے کے حوالے سے اعلیٰ حکام سے بات کرینگے تاکہ کیچ کے سرحدی علاقوں میں معاشی سرگرمیاں بحال ہوسکیں ۔

یہ خوش آئند بات ہے مگر اس پر جلد پیش رفت ضروری ہے کیونکہ تاجر برادری کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر کیچ کے سرحدی علاقوں کی بندش کو برقرار رکھا گیا تو مجبوراً احتجاج کا راستہ اپنایا جائے گا لہذا صوبائی حکومت کیچ سرحد کھولنے کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے تاکہ احتجاج کی نوبت نہ آئے۔

کیچ میں معاشی سرگرمیوں کی بحالی سے لوگوں کا روزگار بحال ہوگا، بندش سے فاقہ کشی کی صورتحال پیدا ہوگی۔

امید ہے کہ کیچ سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع جو ایران سرحد سے منسلک ہیں وہاں معاشی سرگرمیوں میں تیزی لانے کے حوالے سے اقدامات اٹھائے جائیں گے تاکہ سرحدی علاقوں کے لوگوں میں موجود بے چینی ختم ہو جائے اور معاشی سرگرمیوں کے ذریعے ان کے معاشی مسائل کسی حد تک حل ہوسکیں۔