|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2024

سندھ کے علاقے رانی پور میں پیر کی حویلی میں کمسن ملازمہ فاطمہ ہلاکت کیس میں اہم موڑ آگیا۔
فاطمہ کی والدہ نے بچی کی موت کو طبعی اور گرفتار ملزمان کو بیگناہ قرار دیتے ہوئے عدالت میں حلف نامہ بھی جمع کروادیا۔
بچی کی والدہ نے کہا کہ گرفتار افراد بیگناہ ہیں اگر عدالت گرفتار ملزمان کو ضمانت دے تو کوئی اعتراض نہیں۔
خیرپور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ اگست 2023 میں پیر کی حویلی میں کمسن فاطمہ کے تڑپنے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی، بچی کی ہلاکت کے بعد ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تشدد اور زیادتی بھی ثابت ہوئی تھی۔
مقدمہ کے اندراج کے بعد پیر اسداللہ شاہ، پیر فیاض شاہ، حنا شاہ اور امتیاز نامی ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔
رپورٹ کی روشنی میں یہ بات بالکل صاف ہے کہ بچی کو زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے جو میڈیکل رپورٹ کی دستاویزات پر موجود ہے اور ریکارڈ کا حصہ ہے۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ بچی کی والدہ کو دباؤ میں لاکر کیس کو ختم کرنے کی کوشش تونہیں کی جارہی ، اگر ایسا ہے یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ معصوم بچیوں اور بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بعد اہل خانہ کو مکمل سیکیورٹی کی گارنٹی نہیں ہوتی اس لئے وہ مزید جانی و مالی نقصان سے بچنے کیلئے بہ امر مجبوری سمجھوتہ کرتے ہیں مگر ریاست کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے، ایسے کیسز کو نہ صرف منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے متاثرہ خاندان کے ساتھ مکمل تعاون اور رابطے مستحکم کرنے چاہئیں بلکہ ان پر ڈالنے والے دباؤ پر بھی کڑی نظر رکھنی چاہئے تاکہ جرائم پیشہ عناصر اپنے انجام کو پہنچیں اور بچوں بچیوں کے ساتھ ہونے والے زیادتی اور تشدد کے کیسز میں کمی آئے۔
اعلیٰ عدلیہ بھی اس میں اپنا کردار ادا کرے یہ معصوم بچوں کی زندگی اور مستقبل کا سوال ہے جنہیں کم عمری میں ہی ظالمانہ کارروائی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، رپورٹ کے مطابق بچوں سے جنسی تشدد کے واقعات میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے اور 92 سے زیادہ بچوں کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا۔
بچوں کے ساتھ ریپ کے واقعات رپورٹ کرنے والے ادارے کے مطابق ملک میں 2021 میں بچوں سے جنسی تشدد کے کل 3852 کیسز سامنے آئے۔
بچوں سے جنسی تشدد کے 2275 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 750 میں بچوں سے ریپ کیا گیا، 676 میں جنسی تشدد، 561 میں ریپ کی کوشش، 133 واقعات میں ریپ اور غیر اخلاقی ویڈیوز، 87 واقعات میں ریپ کے بعد قتل جبکہ 68 واقعات میں بچوں کے قریبی رشتے دار ملوث پائے گئے۔
ان واقعات میں تناسب دیکھیں تو 54 فیصد لڑکیاں اور 46 فیصد لڑکے ریپ کا شکار ہوئے یعنی 2068 لڑکیاں اور 1784 لڑکے ریپ کا نشانہ بنے۔
ان اعداد و شمار کے مطابق ملک میں روزانہ دس سے زیادہ بچے ریپ کا نشانہ بنتے ہیں۔
یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے کیونکہ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ عدم تعاون کی وجہ سے کیسز منطقی انجام تک نہیں پہنچتے ۔
یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے اس پر باقاعدہ سندھ حکومت اور وفاقی حکومت بھی اپنا کردار ادا کرے تاکہ جنسی کیسز کے واقعات میں کمی آسکے اور ملزمان کو قوانین کے تحت سزا دی جائے تاکہ اس طرح کے واقعات کا تدارک ممکن ہوسکے۔