جنوبی پنجاب میں کچے کے علاقے ماچھکہ میں گزشتہ دنوں ڈاکوؤں نے پولیس کی دو گاڑیوں پر راکٹوں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 12 اہلکار شہید اور 6 زخمی ہو گئے۔
پولیس نے مرکزی ملزم کو ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
پولیس اہلکار ہفتہ وار ڈیوٹی کر کے واپس آ رہے تھے کہ فتح پور کے قریب ان کی دونوں موبائل گاڑیاں بارش کے پانی میں پھنس گئیں، اِن میں سے ایک گاڑی خراب بھی ہو گئی۔
اِسی دوران ڈاکوؤں نے راکٹوں سے حملہ کر دیا۔
پنجاب پولیس کے مطابق اِن گاڑیوں میں 22 اہلکار سوار تھے۔
ہسپتال میں موجود زخمی اہلکار کے بیان کے مطابق ڈاکو وہاں گھات لگائے بیٹھے تھے، وہ جدید ہتھیاروںسے لیس تھے، گاڑی جیسے ہی کیچڑ میں پھنس کر خراب ہوئی وہ لوگ فوراً حرکت میں آ گئے۔
پولیس اہلکار ماچھکہ میں قائم ایک کیمپ میں ڈیوٹی پر تعینات تھے اور وہیں سے واپس جا رہے تھے۔
اِس حملے کے بعد حکومت نے ڈاکوؤں سے آہنی ہاتھوں سے نبٹنے اور اْنہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے حملے کی شدید مذمت کی اور شہید ہونے والوں کے لواحقین کے ساتھ اظہارِ تعزیت کیا۔
اْنہوں نے کچے کے علاقے میں موجود جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اِداروں پر حملے ناقابل ِ برداشت قرار دئیے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے پولیس کے قافلے پر ڈاکوؤں کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جوانوں کی شہادت پر گہرے دْکھ اور غم کا اظہار کیا۔
اْنہوں نے حملہ آوروں کے خلاف فوری اور مؤثر کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے اْنہیں قرار واقعی سزا دلوانے کی یقین دہانی کرائی۔
ایڈیشنل آئی جی پنجاب پولیس کامران خان کے مطابق کچے کے علاقے میں پولیس اہلکاروں پر حملے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ رواں ماہ میں یہ تیسرا حملہ ہے۔
اِس سے قبل دو مرتبہ ڈاکو گروہوں کی صورت پر پولیس پر حملہ کر چکے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر کچے کے ہائی ویلیو ٹارگٹ ڈاکوؤں کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کر دی گئی ہے، خطرناک ڈاکو کی گرفتاری پر 50 لاکھ روپے انعام اورکم خطرناک ڈاکوؤں اور دہشت گردوں کی گرفتاری پر 25 لاکھ روپے انعام مقرر کر دیا گیا ہے۔
کچے کا علاقہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان سے تقریباً 100 کلو میٹر جنوب سے شروع ہوتاہے جو ریتلے علاقوں پر مشتمل ہے،یہ علاقہ زیادہ تر خشک رہتا ہے لیکن سیلابی موسم میں یہاں پانی بھر جاتا ہے، یہ پاکستان کے تین صوبوں پنجاب، سندھ اوربلوچستان کے سنگم پر واقع ہے۔
اِس علاقے میں نہ صرف تینوں صوبوں کے ڈاکو آپس میں رابطے میں رہتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے رہتے ہیں۔
کچے کے ڈاکو کئی دہائیوں سے یہاں وارداتیں کر رہے ہیں،ہزاروں لوگوں کو قتل کر چکے ہیں،اربوں روپے کے تاوان وصول کر چکے ہیں۔
رواں سال مارچ میں سندھ پولیس نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق سندھ میں کندھ کوٹ اور کشمور کے کچے کے ڈاکوؤں نے ایک سال میں 400 افراد کو اغوا کیا، وہ سرعام شہریوں، سکیورٹی و ریسکیو اہلکاروں کو اغوا کرتے ہیں، اْنہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں،ان کی ویڈیوز بناتے ہیں اور اہل خانہ سے کروڑوں روپے تاوان مانگتے ہیں۔
اگر تاوان نہ جائے تو وہ اغوا ہونے والے فرد کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
اب بھی سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقے میں کئی ماہ سے ان کی سرگرمیوں کی خبریں آتی رہی ہیں لیکن دونوں صوبوں کی پولیس مل کر بھی ان کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہے۔
کچے کے علاقے میں گزشتہ ڈیڑھ برس سے آپریشن بھی جاری ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کچے کے علاقے میں موثر اور گرینڈ آپریشن کیلئے تینوں صوبوں کو دعوت دی ہے تاکہ کچے کے ڈاکوئوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے۔
بہرحال اب بیانات، مذمت انعامی رقم کے اعلانات سے آگے نکل کر پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کوکچے کے ڈاکوئوں کے خلاف بڑے پیمانے آپریشن کی طرف جانا چاہئے جس میں وفاقی حکومت کا بھی مکمل تعاون شامل رہے وگرنہ اس طرح کے حملے کچے کے ڈاکو مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے اور اغواء کاری کا سلسلہ مزید بڑھے گا۔
ریاست کے پاس ڈاکوئوں کے مقابلے میں افرادی قوت اور وسائل بہت زیادہ ہیں اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے آپریشن کرکے ڈاکوؤں کا خاتمہ کیا جائے جو ریاست کی رٹ کو چیلنج کررہے ہیں اور شہریوں کیلئے خوف کی علامت بن چکے ہیں۔
کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف گرینڈ آپریشن ناگزیر!
وقتِ اشاعت : August 27 – 2024