لاہور ؛ وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں دہشتگرد حملے پلاننگ سے کیے گئے، پیچھے دشمن ملک ہے،دہشتگردوں کی نہ اتنی تعداد ہے نہ اتنی قوت، ہماری فورسز میں اتنی اہلیت ہے کہ دہشتگردوں کا خاتمہ کر سکتے ہیں، بانی پی ٹی آئی کا رویہ پاکستان کی سیاست میں خلل ہے،
پی ٹی آئی حقیقت تو ہے لیکن سیاسی جماعت نہیں۔انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں دہشتگردی کے پیچھے وہ ممالک ہیں جنہوں نے گزشتہ 75سالوں سے ہمارے ملک کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کیا،
اس دہشتگردی کا اسی انداز سے مقابلہ اور قلع قمع ہونا چاہیے جس طرح دیگر دہشتگرد تنظیموں کے خلاف ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں نے منظم ہوکر پروگرام بناکر ایک دن میں تین چار واقعات کیے، دہشتگردوں کی نہ اتنی تعداد ہے نہ اتنی قوت، ہماری فورسز میں اتنی اہلیت ہے کہ دہشتگردوں کا خاتمہ کر سکتے ہیں، دہشتگرد کبھی کبھار چھپ کر کوئی بس روکتے ہیں اور ایسا واقعہ کرتے ہیں،
ہمیں اپنی فورسز کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔رانا ثناء اللہ نے کہا کہ دہشتگردوں کو جب موقع ملتا ہے وہ ٹولیوں کی صورت میں ایسے واقعات کردیتے ہیں، دہشتگرد کوئی بہت بڑی قوت نہیں، ان کی رٹ قائم نہیں ہوسکتی، نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ بالکل ہوگی، پہلے بھی ہوتی رہی ہے، کمیٹی بڑے تسلسل کے ساتھ ملتی ہے۔سیاسی صورتحال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی بھی وقت بیٹھا جاسکتا ہے، فتنہ ایک ہی ہے، وہ پی ٹی آئی کہہ لیں یا بانی پی ٹی آئی، عمران خان کسی کے ساتھ نہ بات کرنے کو تیار ہیں نہ بیٹھنے کو۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حقیقت تو ہے لیکن سیاسی جماعت نہیں۔بانی پی ٹی آئی کسی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں، وہ جب اقتدار میں تھے، اس وقت بھی کسی کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔جب وہ ہمارے خلاف مقدمات کر رہے تھے، ہم نے اس وقت بھی میثاقِ جمہوریت کی بات کی۔بانی پی ٹی آئی کا رویہ پاکستان کے لیے افراتفری کا سبب بن سکتا ہے۔جب عمران خان اقتدار میں تھے تو کہتے تھے کسی کو نہیں چھوڑوں گا،
اب کہتے ہیں میں نہیں تو پاکستان نہیں، ان کی سیاست میں ایسا خلل ہے جس کو حل ہونا چاہیے، باقی کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل نہ کرسکے۔وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان کوئی فائرنگ نہیں ہوئی، سیاسی جماعتیں اور کارکن بیان نہ دیں تو پھر کیا کریں گے، سیاسی بیان بازی ہوتی رہنی چاہیے۔