|

وقتِ اشاعت :   August 30 – 2024

کوئٹہ :  موسی خیل واقع کی انکوائری کی ضرورت بلوچستان مین آپریشن کیا گیا تو بلوچ اور پشتون ایک پارٹی بھی حکومت کے ساتھ نہیں ہوگئی، بلوچستان مشرف کی لگائی آگ میں جل رہا ہے ہزاروں نوجوان اس آگ میں جل گئے ہیں، نیشنل ایکشن پلان کے تحت فیصلہ ہوا کہ بلوچستان میں مزاحمت کاروں سے مزاکرات ہوگا۔

اسلام آباد نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکر ٹری جنرل و سینیٹر جان محمد بلیدی نے سینٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موسیٰ خیل میں رونما ہونے والے افسوسناک واقع پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا۔ انہو ں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات قابل نفرت و مزمت ہوتے ہیں ایسے واقعات کی تحقیقات ہونی چاہئے کیونکہ جب منفی باتیں ہونگے تو برادر قوموں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی ہوگئی۔ سوشل میڈیا نے اس حوالے سے منفی کردار ادا کیا۔ انہو ں نے کہا کہ بلوچ کی نفسیات میں کمزور و نہتے پر ہاتھ اٹھانے سے منع کیا گیا ہے

جو بڑوں کی عزت نہ کرئے کمزوروں پر ظلم کرے، جھوٹ بولے فریب کرے تو ہم ایسے بلوچ نہیں کہتے ہیں۔

بلوچ کی نفسیات اور سیاست میں انسان دوستی، خواتین کا احترام شامل ہے۔ عزت، غیرت، راست گوئی اور انصاف ہندی بلوچ نفسیات کا حصہ ہے۔

اور جو کچھ موسی خیل اور قلات میں ہوا اس کی جتنی بھی مزمت کی جائے کم ہے۔ انہو ں نے کہا کہ بلوچستان میں جو آگ لگی ہے وہ جرنل پرویز مشرف کی لگائی ہوئی ہے جس سے ہزاروں نوجوان جل گئے۔ امن و امان تباہ و برباد ہوا اور سیاست بھی اس کی نظر ہوئی۔

ہمارے واضع سیاسی موقف ہے کہ بلوچستان کے مسلے کے حل کے لیے مزاکرات کا عمل شروع کیا جائے۔٫

یہ صرف ہمارا نہیں پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کا اے پی ایس کے بعد مشترکہ فیصلہ تھا کہ بلوچستان میں مزاحمت کاروں کے ساتھ مزاکرات کیا جائے اس فیصلے میں ملک کی چھوٹی بڑی تمام سیاسی پارٹیاں شامل تھے مسلم لیگ، پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام، اے این پی، بی این پی اور نیشنل پارٹی سمیت ملک کی سیول و ملٹری مقتدرہ برائے راست اس میں شامل تھے۔ نیشنل ایکشن پلان میں بلوچستان کے حوالے سے مزاکرات کی حکمت عملی رہی جس پر ڈاکٹر عبدالمالک نے عمل کیا اور مزاکراتی عمل کو آگئے بڑایا لیکن بدقسمتی سے بعد میں اس عمل کو روک دیا گیا۔

انھوں نے کھاکہ سیاسی انجینرنگ اور مداخلت کی واجہ سے آج حالات مزید سنگین صورتحال اختیار کرچکے ہیں۔ لوگوں کا جمہوریت اور جمہوری سیاسی عمل سے عتبار ٹوٹ چکا ہے ۸۱۰۲ اور ۴۲۰۲ کے انتخابات نے حالات کو مزید پیچیدہ اور سنگین بنا دیا انتخابی عمل سے ہم سیاسی و جمہوری پارٹیوں کا اعتبار بھی ختم ہوگیا ہے۔انہو ں نے کہا کہ ایک بات ہم بڑی واضع کہہ دیتے ہیں کہ آج ہم یہاں موجود ہیں اگر کل حکومت نے آپریشن کا فیصلہ کیا تو ہم بلوچ اور پشتوں تمام سیاسی و جمہوری پارٹیاں بھی آپ کو چھوڑ دینگے بلوچستان کی ایک بھی سیاسی پارٹی اور فرد بھی آپ کے ساتھ نہیں ہوگا۔

غلطیاں کرنا بند کریں سیاسی عمل و مزاکرات کو شروع کریں۔ کریڈیبل اور باعزت و بااختیار افراد پر مزاکراتی کمیٹی بنائیں۔ آپریشن کی سوچ کو اپنے دماغ سے نکال دیں۔