کوئٹہ: سینئر سیاست دان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ عوامی نمائندگی کا اختیار عوام کے پاس ہے،کوئٹہ شہر کو سیاسی یتیموں کا مرکز بناکر حقیقی نمائندوںکو پارلیمنٹ سے باہر رکھ کر ان لوگوں کو شہر پر مسلط کیا گیا ہے جو اپنے حلقوں میں کونسلر بننے کی اہلیت نہیں رکھتے،
کروڑوںروپے دے کر فارم 47 حاصل کرنے والوں کا ہدف عوامی خدمت نہیں، پیسے کمانا ہے،یہ بات انہوںنے جمعہ کے روز حاجی اسحاق لہڑی کی رہائش گاہ پر اپنے اعزاز میں دیئے گئے عصرانہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی،
عصرانے میں رئیسانی روڈ کلی شیخان اور ان سے ملحقہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوںافراد شریک تھے ،نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے عصرانے کے منتظمین اور شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے آج سے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا ہے
ہمارے اور اس شہر کے لوگوں کے درمیان سیاسی،سماجی رشتہ صدیوں پر محیط ہے اس دوران نہ صرف ہم نے بلکہ اس شہر کے لوگوں نے بھی صدیوں پر محیط اس تعلق کو برقرار رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آج کا یہ اجتماع اس کی ایک کڑی ہے اس کے برعکس کہ ہمارے حلقوں ، صوبے اور شہر میںجعلی لوگوں کو الیکشن کے نام پر مسلط کیا گیا ہے تاہم ہماری ذمہ داریاں ختم نہیں ہوئیں بلکہ ہماری ذمہ داری یہاں سے شروع ہوئی ہے
کیوں کہ عوامی نمائندگی کا اختیار آج بھی عوام کے پاس ہے عوامی رابطہ مہم کے تحت یونین کونسل کی سطح پر جاکر عوام کو مشترکہ جدوجہد کی دعوت دیں گے تاکہ اس شہر اور صوبے کو درپیش بحرانوں کا راستہ روکا جاسکے ، انہوںنے کہاکہ آٹھ فروری کو بلوچستان میں الیکشن کے نام پر سلیکشن کرایا گیا اورمن پسند لوگوں سے پیسے لیکر انہیں منتخب کراکے ایوانوں میں بھیجا گیا جس کے نتیجے میں بلوچستان کے بحرانوں اور مسائل میں اضافہ ہوا ہے
اور ہم ایک بہت بڑے اقتصادی، سماجی، معاشی، معاشرتی ، اخلاقی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں،انہوںنے کہاکہ جس صوبے کے وسائل نے اس ملک کی معیشت کو سہارا دیا جس کے ساحل کو گیم چینجر قرار دیا جارہا ہے جہاں سیندک، ریکودک اور معدنی زخائر ہیں اس کے پایہ تخت کو ایک نمایاں اور مثالی شہر ہوناچائیے تھامگر اس شہر کو سیاسی یتیموں کا مرکز بناکر حقیقی نمائندوں کو پارلیمنٹ سے باہر رکھ کر ان لوگوں کو یہاں سے منتخب کرایا گیا جو اپنے اپنے علاقوں میں کونسلر بننے کی اہلیت نہیں رکھتے، کروڑوںدے کر فارم 47 حاصل کرنے والوں کا ہدف عوامی خدمت نہیں بلکہ پیسے کمانا ہے،
انہوںنے کہاکہ اس شہر کے لوگوں کو بھی اپنا احتساب کرنا چائیے کہ جب انہیں ووٹ کی پرچی کے ذریعے فیصلہ کا اختیار ملاتو وہ بدترین انتشار کا شکار ہوکر پراکسیز، پروپگینڈوں، مذہب ، برداری ، قبائلی، نسل کی بنیاد پر تقسیم ہوئے جس کے نتیجے میں ان لوگوں کو اس شہر پر مسلط کیا گیا
جن کا تعلق بھی کوئٹہ شہر سے نہیں ہے اور اب اس شہر کے لوگوں کو اس کا خمیازہ آئندہ پانچ سالوں تک بھگتنا پڑئیگا ، اس شہر کے لوگوں کو بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لاکر اس شہر اور صوبہ کی ذمہ داری اٹھانا پڑئیگی ، انہوںنے کہاکہ ہم کوئٹہ شہر اور اس صوبے کے اسٹیک ہولڈرز ہیں ہم کو سوچنا پڑئیگا کا ہمارے کون سے رویے اور غلطی نے ہم کو اس نہج پر لاکھڑا کیا ہے کہ اس پرامن شہر میں آج بدامنی ، منشیات فروشوں کا راج ہے
لوگ رات کو گھروں سے نکل نہیں سکتے، تعلیمی ادارے ، صحت کے مراکز بدترین انتظامی بحران کا شکار ہیںلوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں ،ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوان بدترین بے روزگاری کا شکار ہیں اور ان کے خاندان اذیت سے گزررہے ہیںکیوں کہ حقیقی نمائندوں کے بجائے کاروباری اور ٹھیکیدار طبقہ کو اس صوبہ اور شہر پر مسلط کیا گیا ہے،انہوںنے کہاکہ میرا رشتہ اس شہر اور صوبہ کی مٹی کیساتھ ہے اس صوبے اور لوگوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔