|

وقتِ اشاعت :   August 30 – 2024

کوئٹہ : وائس فار بلوچ مسنگ پرسنزکے چیئرمین نصر اللہ بلوچ اور وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین کے ہمراہ کہا ہے کہ جبری گمشدہ افراد کے عالمی دن کے موقع پر بھی ہمارے لاپتہ پیاروں کو بازیاب نہیں کرایا جاسکا کیونکہ جبری گمشدگی ایک ماورائے آئین اقدام اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو جبری خفیہ حراست میں لئے جانے والے افراد کے عالمی دن کے موقع پر عدالت روڈ پر منعقدہ لاپتہ افراد کے کیمپ میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس ماورائے آئین اقدام کی شدت کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے کرب و اذیت کو اجاگر کرنا ہے2011 میں اقوام متحدہ اپنی قرار داد 209/65کے ذریعے اس دن کو عالمی سطح پر منانے کی منظوری دی تھی چونکہ ریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والا شخص قانونی تحفظ سے محروم ہوجاتا ہے اس کی شناخت تک چھین لی جاتی ہے

اور حکومتی سطح پر جبری لاپتہ شخص کے اہلخانہ کو معلومات فراہم نہیں کی جاتی جسکی وجہ سے ان کے اہلخانہ سمیت ان کے دیگر لواحقین شدید ذہنی کرب و اذیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اس لیے اقوام متحدہ کے دو بین الاقوامی کنونشنز نے ریاستی اداروں کے اس ماورائے آئین اقدام کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا ہے اور اس عمل کو انسانی حقوق کی خلاف تمام خلاف ورزیوں میں سب سے بد ترین عمل سمجھا جاتا ہے ریاستی اداروں نے ڈکٹیٹر مشرف کے دور حکومت میں ملکی سلامتی کے نام پر بلوچستان سے بلوچ سیاسی کارکنوں،

بلوچ دانشوروں اور بلوچ طلبا سمیت دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کرنے کے سلسلے کو شروع کیا جو تسلسل کے ساتھ تاحال جاری ہے2000 میں علی اصغر کو پہلی بار لاپتہ کیا اور 14 روز بعد چھوڑ دیا اور 18 اکتوبر 2001ء کو دوسری بار اس کے دوست محمد اقبال کے ہمراہ پکڑا گیا اور 24 روز بعد اقبال کو رہا کردیا گیا تا حال علی اصغر لاپتہ ہے اسی طرح ڈاکٹر دین محمد ، ذاکر مجید سمیت ہزاروں لوگ جبری گمشدگی کا شکار ہوئے اور ان کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی اور انصاف کے حصول کے لئے انصاف فراہم کرنے والے اداروں سے دسترس کرتے رہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور نہ ہی انہیں رہا کیا گیا

اور نہ ہی ان کا جرم بتایا گیا تا حال یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہے یا نہیں انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جارہی ہے اور فیک ان کائونٹر کرکے انہیں قتل کرکے مقابلے کا نام دیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز خضدار سے 4نوجوانوں کی مسخ شدہ نعشیں ملی ہے

جنہیں رواں سال لاپتہ کیا گیا تھا اس کے علاوہ ایران اور افغانستان میں مکین بلوچ مہاجرین کو قتل کیا جارہا ہے اور بعض کو وہاں سے جبری لاپتہ کرکے حکومت پاکستان کے حوالے کرنے کی شکایات مل رہی ہے جس طرح محمود علی کو افغانستان اور واجد قمبر ایران سے لاپتہ کیا گیا ہے آج جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے عالمی دن کی مناسبت سے ہم حکومت سے تمام لاپتہ افراد کی بازیابی اور ان پر الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے جرم ثابت کیا جائے

اور لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں مارنے کا سلسلہ بند کیاجائے۔ لاپتہ افراد اگر دنیا میں نہیں تو ان کے خاندانوں کو معلومات دی جائے اور جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کیا جائے اور اس عمل کو قانوناً جرم قرار دیا جائے اور ماورائے قانون اقدام میں ملوث اداروں کو ملکی قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میںلایا جائے اور ان کے اختیارات محدود کئے جائیں۔اور جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن کی آزادانہ طور پر تشکیل نو کی جائے محض تحقیقات نہیں بلکہ جبری گمشدگیوں میں ملکی اداروں کے خلاف قانو نی کارروائی کی جائے۔ اور ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت پاکستان جبری گمشدگیوں کے حوالے سے بنائے گئے بین الاقوامی کنویشن پر دستخط کرے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *