|

وقتِ اشاعت :   September 1 – 2024

گزشتہ چند ماہ سے ملک میں بجلی کے نجی کارخانوں (آئی پی پیز) کو کی جانے والی ادائیگیاں کپیسِیٹی پیمنٹ زیرِ بحث ہے اور سوال اٹھایا جارہا ہے کہ یہ کارخانے بجلی بناتے ہی نہیں تو ان کو اربوں روپے کیوں دئیے جارہے ہیں تو وہیں کچھ لوگ الزام لگاتے ہیں کہ ان آئی پی پیز کے پیچھے دراصل ملک کی اشرافیہ بشمول سیاستدان اور کاروباری شخصیات ہیں جو ان سے بے جا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

کیپیسٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے جو صارفین کی جانب سے بجلی کی اضافی مانگ کی صورت پر مہیا کی جا سکے لیکن جب کوئی پلانٹ اپنی پوری صلاحیت پر اس لیے بجلی پیدا نہیں کرتی کیونکہ ملک میں اس کی مانگ نہیں تو ایسے وقت میں ان پاور پلانٹس کو فعال رکھنے کے لیے کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے۔ بہرحال یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ آئی پی پیز سے چھٹکارا مشکل ہے اس کی واضح مثال وفاقی وزیر توانائی کا بیان ہے۔

وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری کا کہنا ہے کہ ادھر لوگ احتجاج کرتے رہ گئے، ادھر آئی پی پیز کے کیپیسٹی چارجز میں 100 ارب روپے مزید بڑھ گئے، رواں سال 1900 ارب کے بجائے 2 ہزار ارب روپے کے کیپیسٹی چارجز کا تخمینہ ہے۔

سینیٹ قائمہ کمیٹی پاور اجلاس میں وفاقی وزیر اویس لغاری نے صاف صاف کہہ دیا آئی پی پیز سے معاہدے یک طرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتے، ان معاہدوں پر حکومت کی ضمانت ہے۔

آئی پی پیز معاہدوں پر یک طرفہ قدم اٹھانے سے ریکوڈک جیسی صورتِ حال پیدا ہوگی۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی پاور محسن عزیز نے کہا کہ تمام معاہدے سامنے آگئے ہیں، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی پاور کو آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی کاپیاں جمع کروا دی گئی ہیں۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ نیپرا نے آئی پی پیز کو 15 سے 16 فیصد منافع کی اجازت دی جبکہ آئی پیز کی بیلنس شیٹس 60 سے 70 فیصد منافع دکھا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ محمد علی رپورٹ میں آئی پی پیز کی طرف سے ‘اوور انوائسنگ’ اور آئی پی پیز کا ‘ہیٹ ریٹ’ نہ ہونے کا تذکرہ بھی کیا گیا۔رکن کمیٹی سینیٹر شبلی فراز نے سوال کیا کہ بتایا جائے کہ معاہدے کونسی حکومتوں میں ہوئے،

بجلی کا وزیر اور سیکرٹری کون تھا، آئی پی پیز کے منافعے منشیات کی کمائی کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔

وفاقی وزیر پاور اویس خان لغاری نے کہا کہ محمد علی رپورٹ میں آئی پی پیز کے ‘ہیٹ ریٹ آڈٹ’ کا کہا گیا تھا جو نہ کیا گیا۔ جن کی ضرورت نہیں ان آئی پی پیز کو ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن یکطرفہ طور پر نہیں کرنا چاہتے، مستقبل میں اچھی خبردیں گے۔

بہرحال اچھی خبروں کی امید تو دکھائی نہیں دے رہی بلکہ بجلی مزید مہنگی ہونے کا خدشہ ہے چونکہ آئی پی پیز سے کئے گئے معاہدوں کا ازسرنو جائزہ نہیں لیا جارہا تو معاہدے ختم کیسے کئے جاسکتے ہیں۔

تاجروں اور عوام کو بجلی کی قیمتوں میں وقتی ریلیف دینے کی بجائے مستقل حل نکالنا ضروری ہے اور اس میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کو ختم کرنا وقت کی ضرورت ہے مگر حکومت اس کیلئے تیار دکھائی نہیں دے رہی ۔