|

وقتِ اشاعت :   September 2 – 2024

کوئٹہ: نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے کہا ہے کہ ریاست کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے یہ تمام چیزیں روز بروز فیڈریشن اور بلوچ نوجوانوں کے اندر گیپ بٹ رہا ہے اس کی بنیاد ہم 75 سالوں میں 76 سالوں میں ڈھونڈنے کی بجائے اس کو ابھی سے ہم بیچ لیتے ہیں عوام جن لوگوں کو ووٹ دیا ہے لیکن اس کا رزلٹ کسی اور کوجاتا ہے

تو اس دفعہ کی الیکشن میں خاص طور پر 2018 کی الیکشن میں اور خاص طور پر اس الیکشن میں میں سمجھتا ہوں کہ بلوچ یوتھ کو کافی جمہوریت سے مایوس کیا ہے اور جو ہم لوگ فیڈریشنز پارٹیاں ہیں جو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کو آئندہ اور قانون کے اندر جو ہے نا ہمیں رہ کے اپنے حقوق کی بات کرنی چاہیے تو بلوچ یوتھ جو ہے نا وہ اب بہت تیزی سے اس جمہوریت سے بھی بھاگ رہہ ہے اور وفاق سے بھی بھاگ رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے

ان خیالات کااظہار انہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ہم پہ ایک مایوسی کا فضا ہے نوجوان بلوچستان میں اپنے مستقبل کو یہاں سیف نہیں سمجھ رہے ہیں یا نہ جاب اپورچونٹی ہے نہ یہاں پہ وہ بنیادی سہولتیں ہیں مل رہی ہے ہمارے جو روڈز ہیں کوئی ایسا دن نہیں ہے نا ہمارے لوگ نہیں مر رہے ہوں ایکسیڈنٹ تک میں اضافہ ہوں ہو رہا ہے وجہ کیا ہے وجہ یہ ہے کے 30 سال سے روڈ بنے نہیں ہے بجلی کا حال یہ ہے کہ پورا سالہ سال یا بجلی ائی ہی نہیں ہے ہماری بے شمار مشکلات ہیں اہستہ اہستہ یہ جو ہے نا جمع ہوئے ہیں اور یہ نفرتوں کو بڑھا رہے ہیں دوسری جانب پہ 20 سال سے 22 سال سے ایک انسرجنسی چل رہی ہے اس انسرجنسی کو ہماری خواہش تھی اس زمانے میں کہ اس کو بات چیت کے زریعے حل کیا جائے ایک حد تک ہم کامیابی رہے

لیکن پھر اس کو جن لوگوں نے ہمیں بھیجا تھا وہ لوگ پیچھے ہٹ گے اور آج بھی لاپتا افراد کا ایشو یہاں پہ ہے یہ تمام ایشوز ہیں جس کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے اب اگر اپ کے تمام نمائندے وہاں پہ ائیں اور وہ صرف اور صرف اپنے لوٹ مارنے لگے ہوئے ہیں اور گورننس نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے تو اس سے مشکلات تو ہوں گے نا جس کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ روزانہ جو ہے ہماری لوگ مارے جا رہے ہیں انہوں نے کہا کہ کے میں ایک جمہوری آدمی ہوں بلوچوں میں خودکش حملہ آور کا ہونا ایک تشویش ناک عمل ہے اور بلوچوں میں خواتیں کاخودکش ایک نیا فینا بن گیا ہے جب تک بلوچستان کو پولیٹیکلی ڈیل نہیں کریں گے یہ مشکلات کم نہیں ہوں گے زیادہ بڑی اپ دیکھ رہے ہیں کہ اپ کے لیے کتنے زیادہ تشویش کا باعث ہے اپ یہ اس چیز کے اوپر ذرا لائٹ ڈال سکتے ہیں کہ جو بلوچ نوجوان ہیں وہ یہ عسکریت پسندوں کو رادر انرز ٹیررسٹ جو سٹیٹ کا ایک وہ نیریٹو ہے اس کو ایکسیپٹ کرنے کی بجائے ان کو فریڈم فائٹرز کے طور پر دیکھنے لگ گئے ہیں بلوچستان میں تو ایک سکول آف تھاٹ شوز سے ہی تھا ازادی کے نام پہ تو اسٹارٹس کو تقویت مل رہی ہے غلط پالیسیوں کی وجہ سے جب اپ کی پالیسی ہے غلط ہے تو اپ لوگوں کی ری ایکشن بھی اسی طرح ائے گی تو جو فریڈم فائٹرز ہیں یا ملیٹنٹس ہیں ان کو تقویت مل رہی ہے جو پالیسیاں ہماری جو صاحب اقتدار لوگ ہیں لوگوں نے بنائی ہے دیکھیں بلوچستان کو گزشتہ 20 22 سالوں سے مس ہینڈل کیا ہوا ہے ایسے واقعات ہوئے ہیں

یہ سارے نہیں ہونا چاہیے تھے اور ان کو روک سکتے تھے لیکن انہوں نے جو فیصلہ کیا ہے وہی ہوگا اب اس دفعہ بھی یہی ہے دیکھیں نا جس پر بھی ہو جس بے گناہ پہ بھی ہو قابل مذمت ہے اکراس نہیں بول مذہب کے نام پہ ہو زبان کے نام پہ ہو قوم کے نام پہ ہو جو زیادتی ایک غریب کے ساتھ ہوں اس طرح جو ابھی کچھ یہ جو لہرا گیا ہے اس لہر میں جو موساخیل میں مارے گئے یا قلاب میں جو ہمارے لیویز کے اور پولیس کے اور عام شہری 10 کے قریب مارے گئے یا قلات میں لوگ مارے گئے یہ ایک تاثر صرف دیا جا رہا ہے کہ صرف پنجابی کو مارا جا رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ دہشت گردی کی زد میں سب ہیں یہ جو قلات میں مارے گئے یہ تو سارے بلوچ تھے دس کے دس بلوچ تھے کون کون میں جو مارے گئے وہ چار کے چار بلوچ تھے اٹھ دس دن پہلے ہماری ڈپٹی کمشنر پنجگور کو مارا گیا ہمارے ناظم تھے پنجگور رہے اس کو مارا جو بچ گیا یہ ایک تاثر جو قائم کیا جا رہا ہے

میں سمجھتا ہوں اس طرح نہیں ہے اسی رات کو جو رانا شم میں واقع ہوا جب قابل مذمت ہے اسی طرح قلات میں ہوا ہے ان کے نام میڈیا نہیں لیتا ہے بالکل صحیح ہے جتنا ایک لوگ کیا ہے وہ بھی سرکاری فرائض انجام دے رہے تھے وہ بھی پاکستانی تھے بالکل اچھا ہو کہ ان تمام چیزوں کو بھی وزٹ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بات کرنا کہ صرف ایک ایس ایچ اوکو ٹھیک کرے گا تو 22 سال سے وہ ایس ایچ او ٹھیک کر لیتا نہ تو اس طرح سے اس بیانات سے چیزیں اور خراب ہو جاتی ہیں

اس طرح پنجاب کے غریب مارے گئے قلات میں 10 کے قریب پانچ ہلاک ہوئیایک پولیس اور 4 بے گناہ مارے گئے کول پور میں بھی مارے گئے یہ ایک دہشت گردی کا لہر تھی کہ ضرورت ہے اور ایک تھانہ دار سے اگر ٹھیک ہوتے تو تب کا ٹھیک ہو چکے ہوتے وفاقی وزیر داخلہ کا یہ بیان غیر سنجیدہ اور غیر پارلیمانی لفظ ہے ان کو اتنا تو سوچنا چاہیے تھا کہ ان کا رتبہ وفاقی وزیر داخلہ کا ہے جو کہ سے ایک پنجاب کا وزیر داخلہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کا وزیر داخلہ ہے