کوئٹہ: جھالاوان عوامی پینل کے سربراہ میر شفیق الرحمن مینگل نے کہا ہے کہ سردار اختر مینگل کا قومی اسمبلی سے استعفیٰ ڈوبتی نائو کا تنکے کا سہارا کے مترادف ہے ان کی جماعت بلوچستان میں غیر مقبول ہوچکی ہے
، بلوچستان میں 70لوگ شہید ہوئے مگر میڈیا اور سیاسی جماعتوں نے ایک استعفیٰ کو اہمیت دی ،بلوچستان پاکستان ہے اس وقت صوبے میں بد ترین دہشتگردی ہے امید ہے ریاست حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سے مضبوطی سے نمٹیں گے ۔وزیراعلیٰ کا وژن اچھا ہے وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہاورڈ اور اکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھیں جبکہ راء کے ایجنٹ انہیں تعلیم سے دور کر کے خودکش حملہ آور بنانا چاہتے ہیں ،بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بی ایل اے کی مجید بریگیڈ کا بیانیہ ایک ہی سمت پر جارہے ہیں ۔ یہ بات انہوں نے ایک انٹرویو میں کہی ۔
میر شفیق الرحمن مینگل نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پسماندگی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ، بیڈ گورننس ، تعلیم کا فقدان مسائل کی اصل وجوہات ہیں جن کی وجہ سے آج نوجوان ریاست سے دور ہیں صوبے میں بار بار منتخب ہونے والے لوگوں نے اپنے حلقوں تک میں کام نہیں کیا ۔وڈھ میں ایک بھی معیاری تعلیمی ادارہ یا سڑک نہیں ہے صوبے کو گڈ گوننس کی ضرورت ہے عوام کو بنیادی حقوق دئیے جائیں تو نوجوانوں میں تبدیلی آسکتی ہے حکومت کو چاہیے کہ بلوچستان کے لئے قلیل اور طویل المدتی پالیسی بنائے اور اسے تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے۔
میر شفیق الرحمن مینگل نے کہا کہ عوام کے قتل عام کے خلاف ٹھوس پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگی غلط ہے قانون کے مطابق لوگوں کو عدالتوں میں پیش کر کے پرکھا جائے مگر ایسے معاملات جن سے شورش بڑھ رہی ہے ان پر ریاست کو سوچنا چاہیے کہ نوجوان غلط سمت پر جارہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ سردار اختر مینگل کا قومی اسمبلی سے استعفیٰ ڈوبتی نائو کا تنکے کا سہارا کے مترادف ہے ان کی جماعت بلوچستان میں غیر مقبول ہوچکی ہے دو روز قبل ان کے والد کی برسی کا جلسہ بھی کامیاب نہیں ہوسکا تھا جس کے بعد انہوں نے استعفیٰ دیا ۔بلوچستان پاکستان ہے اس وقت صوبے میں بد ترین دہشتگردی ہے امید ہے ریاست حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سے مضبوطی سے نمٹیں گے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے متعلق ہمیشہ باتیں کی گئیں اب ان پر عملد آمد کر نے کا وقت ہے موجودہ وزیراعلیٰ کا وژن اچھا ہے وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہاورڈ اور اکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھیں جبکہ راء کے ایجنٹ انہیں تعلیم سے دور کر کے خودکش حملہ آور بنانا چاہتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم، آرمی چیف سمیت تمام اعلیٰ حکام اگر تسلسل کے ساتھ پالیسی بنائیں تو بلوچستان کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جب بھی خلاء پیدا ہوتا ہے تو قدرتی طور پر اسے کوئی نہ کوئی پر کرتا ہے بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اسی خلاء کو پرا کیا ہے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بی ایل اے کی مجید بریگیڈ کا بیانیہ ایک ہی سمت پر جارہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت اور ادارے کنفیوژن سے نکلیں اور عوام کو تحفظ فراہم کریں صوبائی حکومت سے امید ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام کے لئے کام کریگی اور ملک دشمن عناصر کا پروپگنڈا ناکام بنائے گی ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ بین القوامی ہوچکا ہے شورش 1980کی دہائی سے لیکر 2000تک کیوں خاموش رہی ؟ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ازلی دشمن ہندوستان اور اسکی خفیہ ایجنسی را پاکستان میں کالعدم تنظیموں کو چلا رہے ہیں بلخصوص 9/11کے بعد بھارت نے افغانستان میں بلوچستا ن اور خیبر پختونخواء سرحدوں کے قریب اپنے قونصل خانے اور کئی دفاتر بنائے جن سے بلوچستان میں بے تحاشا بد امنی پھیلائی گئی ماضی میں بھی خیر بخش مری اور عطاء اللہ مینگل روس اور بھارت کے گٹھ جوڑ کا حصہ رہے ہیں جبکہ 2001کے بعد سے لوگ پہاڑوں پر گئے اور بی ایل اے کو ایک بار پھر متحرک کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ اختر مینگل نے گوادر سے کوئٹہ تک لشکر بلوچستان کے نام سے اپنے مارچ کے نام پر کالعدم تنظیم لشکر بلوچستان قائم کی جو کہ انکے بھائی جاوید مینگل چلا رہے ہیں او ر یہ تنظیم 2007میں حب، بریگیڈئیر عزیز پر حملوں سمیت سینکڑوں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث رہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستان کو کو توڑنے والوں کے آلہ کاروں نے منظم ایجنڈے کے تحت ان قبائلی رہنمائوں کو شہید کیا جنہوں نے ان کے خلاف آواز بلند کی بلوچستان قبائلی معاشرہ ہے جہاں قدرتی طور پر لوگوں اپنے اور اپنے لوگوں کے تحفظ کے لئے اٹھے اپنا دفاع کیا اور مخالفین کو جواب دیا ۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں لوگ ملک کے لئے جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں ریاست کا کام ہے کہ کالعدم تنظیموں اور ملک دشمن عناصر کو قابو کر کے انکا قلعہ قمع کرے ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے لئے نسلیں قربان کرنے والوں کو اہمیت نہیں دی جاتی بلوچستان میں 70لوگ شہید ہوئے مگر میڈیا اور سیاسی جماعتوں نے ایک استعفیٰ کو اہمیت دی ۔
اگر کسی اور ملک میں اتنے لوگ شہید کئے جاتے تو وہاں کے عوام مسلسل حکومت اور فورسز سے سوال کرتے کہ یہ واقعہ کیوں رونما ہوا ہے دہشتگردی پھیلانے اور معصوم لوگوں کا قتل عام کرنے والوں کو حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے آڑے ہاتھوں لیں ۔انہوںنے کہا کہ ہماری کسی سے ذاتی رنجش نہیں بلکہ نظریاتی اختلاف ہے پاکستان کلمے کی بنیاد پر بناہے لیکن کچھ لوگ بین القوامی قوتوں کے کہنے پر یہاں شر انگیزی پھیلا رہے ہیں بندوق کے زور پر پنجابیوں کا قتل عام اور شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے جبکہ وہی لوگ پنجابیوں سے رشتے داری بھی کر رہے ہیں یہ سیاسی رویہ نہیں ہے اگر کوئی دل سے پاکستان کو مانے ، ظالمانہ روش، دہشتگرد تنظیموں کو ختم کر دے تو ہمیں ان سے کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مجھ پر ایک صحافی پر قاتلانہ حملے اور فرقہ واریت کے الزامات بلکل بے بنیاد ہیں قیامت کے دن ہم اور الزام لگانے والے دونوں ہی اللہ کے سامنے جوابدہ ہونگے پاکستان اور ہمارے نظریے کے مخالف لوگ بے بنیاد پروپگنڈا کر تے ہیں اگر ہمارے خلاف کوئی بھی ثبوت ہے تو عدالتیں موجود ہیں ان میں پیش کیا جائے ہم نے تین نسلوں سے پاکستان کے لئے قربانی دی ہے اور ہر قسم کی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے کام کیا ہے ۔