پاک ایران گیس منصوبہ گزشتہ کئی دہائیوں سے تاخیر کا شکار ہے۔
پیپلز پارٹی کے 2008 کے دور حکومت میں گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا گیا مگر امریکی دباؤ کی وجہ سے اس کے بعد بننے والی حکومتوں نے اس منصوبہ پر کام کا آغاز نہیں کیا۔
پاکستان اس وقت توانائی بحران کا شکار ہے پاک ایران گیس منصوبے سے توانائی بحران کا خاتمہ ممکن ہے جبکہ دیگر بڑے منصوبے بھی شروع ہوسکتے ہیں ۔
ایران گیس منصوبے کے بغیر توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے حکومت کے پاس دوسرے آپشن موجود نہیں مگر امریکہ اس منصوبے کی کھل کر مخالفت کررہا ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے اعتراف کیا ہے کہ امریکی دباؤ ایران گیس پائپ لائن معاہدہ پورا کرنے نہیں دے رہا۔
ایک بیان میں خواجہ آصف نے کہا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ پاکستان کی بقا کا معاملہ ہے، ہم 18 ارب ڈالر کہاں سے دیں گے، اس وقت کے مالی حالات میں ہم 18 ملین بھی نہیں دے سکتے۔ امریکا سے ڈپلومیسی کی جائے تاکہ وہ ہمیں یہ معاہدہ مکمل کرنے دے، رواں ماہ وزیراعظم شہبازشریف امریکا جائیں گے انہیں یہ بات ضرور کرنی چاہیے، ایران نے برادر اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے بہت صبر کیا ہے۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو 2008 یا 2009 میں مکمل ہو جانا چاہیے تھا، ایران عالمی عدالت جا رہا ہے تو اسے اپنے حقوق کا تحفظ کرنا پڑ رہا ہے، ایران پاکستان پر 18ارب ڈالر ہرجانے کے لیے پیرس کی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پاکستان اور ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر پابندی سے متعلق ملکی پالیسی واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران پر پابندیوں کا نفاذ جاری رکھیں گے۔
امریکی ترجمان نے مزید کہا کہ ہم یقیناً ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والے کسی بھی ملک یا شخص کو امریکی پابندیوں کے تناظر میں ان سودوں پر ممکنہ اثرات سے باخبر رہنے کا مشورہ دیتے ہیں تاہم اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی توانائی کی کمی کو پورا کرنے میں مدد کرنا بھی امریکا کی ترجیحات میں شامل ہے اور ہم پاکستان کے ساتھ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے بات چیت جاری رکھیں گے۔
امریکہ کی جانب سے کبھی بھی پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پر کسی طرح کے لچک کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان کی عالمی سطح پر بہت ساری مجبوریاں ہیں جن میں آئی ایم ایف سے قرض لینے کا معاملہ سر فہرست ہے یہ سب جانتے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے سمیت دیگر ممالک میں امریکی لابی بہت مضبوط ہے اگر پاکستان ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ کی طرف پیش رفت کرے گا تو امریکہ کی جانب سے دباؤ بڑھتا جائے گا جس کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں۔
حکومت براہ راست امریکی حکام سے اس معاملے پر بات چیت کرے تب بھی کوئی راستہ کھلتا دکھائی نہیں دے رہا۔
دوسری طرف ایران اگر عالمی عدالت جائے گا تو پاکستان کو ریکوڈک کیس کی طرح جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خطے میں پاور پالیٹکس چل رہی ہے ، امریکہ اور ایران ایک دوسرے کے بدترین مخالف ہیں، اسرائیل کا غزہ میں بڑے پیمانے پر حملوں کے باوجود بھی امریکی جھکاؤ اسرائیل کی طرف ہے جبکہ ایران فلسطین خاص کر حماس کی حمایتی ہے۔
خطے میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے امریکہ کبھی بھی ایران پر لگی پابندیوں کو نہیں ہٹائے گا تو دیگر نئے معاہدوں کو کیسے قبول کرے گا۔ پاک ایران گیس کا مستقبل فی الحال کھٹائی میں دکھائی دے رہاہے۔