|

وقتِ اشاعت :   September 10 – 2024

کوئٹہ: جھالاوان عوامی پینل کے سربراہ میر شفیق الرحمان مینگل نے کہا ہے کہ حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملہ کا الزام بالکل جھوٹا الزام ہے

اور اس پہ اگر یعنی ہم نے حملہ کیا ہو تو قیامت کے دن اللہ ہم سے پوچھے گے ہماری لاتعداد اور بے مثال قربانیاں ہیںجو پاکستان مخالف ہیں جو ہمارے نظریے کے مخالف ہیں وہ ہر قسم کا جھوٹ اور گند ہمارے اوپر الزامات اچھالتے رہتے ہیں

لیکن ہمارا گلا میڈیا سے کہ اس نے کبھی ہمارا اس پہ موقف لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جو میرے خیال میں انسانی حقوق کے حوالے سے شہری حقوق کے حوالے سے خلاف ہے حقوق کے حوالے سے کافی ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی ہیں یہ سراسر جھوٹ ہے اور اس طرح کے جو الزامات ہیں تو یہ ہمارے ملک میں کورٹ موجود ہے

ہمارے عدالتیں موجود ہیں کوئی ایسی چیز ہمارے بارے میں ہے تو عدالتوں میں جائے اور پیش ہوں اور الزامات اس کا ہم سامنا کرنے کے لیے عدالتوں میں تیار ہیں ہم پاکستان میں یعنی مذہبی ہم اہنگی پہ یقین رکھنے والے لوگ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ تمام مکاتب فکر کی اس میں قربانیاں موجود ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کیا

میر شفیق الرحمن مینگل نے کہا کہ یہ ایک انتہائی شرم ناک الزام ہے جو ہمارے مخالفوں نے ہمارے اوپر لگاتے رہتے ہیں بین الاقوامی جو ایجنسیز ہیں جو پاکستان دشمن وہ ان کو چلاتے ہیں ریاست کا کام ہے ان کو قابو میں کرنا ان کا کلا کما کریں ہم پاکستان میں جو معاشرہ ہے سیاسی معاشرہ ہے برادری والا معاشرہ ہے بلوچستان میں اس کو قبائلی معاشرہ کہتے ہیں اس سے تعلق رکھتے ہیں

میرے دادا بھی ایم پی اے رہے 70 کی دہائی میں میرے والد صاحب بھی ایم پی اے رہے سابق وفاقی وزیر رہے اور سابق وزیر اعلی بلوچستان بھی رہے ہیں میں خود ناظم رہا اپنے علاقے کا الیکشن لڑتا آ رہا ہوں افغانستان میں جب یہ بین الاقوامی طاقتوں کا گڑھ بنا اور ہھارت کا کافی عمل دخل ہوا یہاں پر ا کونسلیٹس اس کے کھلے ثقافتی مراکز کھلے اور سب ا حیرت کی بات کہ بلوچستان بارڈر اور کے پی بارڈر جو ہے اس پہ لاتعداد قسم کے مراکز مختلف ناموں سے انہوں نے کھولے بے تحاشہ پیسہ انہوں نے بلوچستان میں بھیجا اور یہاں جو چند لوگ ہیں جو اس زمانے سے یعنی اپ کہہ سکتے ہیں 60 70 کی دہائی میں بھی یہی لوگ شامل تھے

اور اب بھی جیسے عطااللہ مینگل اور اس کی فیملی ہے یا خیربخش مری اور اس کی فیملی جو ہے یہ اپ لوگوں کو تو پتہ ہے کہ اس زمانے میں بھی یہ یو ایس ایس ار اور بھارت کے ساتھ ملے اور اس 9/ 11 کے بعد ان لوگوں نے اپنے کیمپس کھولے

بی ایل اے جو 1960 کی دہائی میں بنی تھی اس کو پھر متحرک کیا دیکھتے ہی دیکھتے 2006 میں جب لشکر بلوچستان مارچ اختر مینگل والوں کی ناکام ہوئی تو اس کا نام انہوں نے اپنے بینڈ ارگنائزیشن پہ جو ملیٹر سے چھوٹا تک کی تھی نا ان کی مارچ یہ نواب اکبر بکٹی کے واقعے کے بعد انہوں نے گوادر سے لے کے کوئٹہ تک ایک لانگ مارچ کا اعلان کیا جس کا نام انہوں نے لشکری بلوچستان مارچ کا تو جو بھی ان کے ڈیزائنز تھے اور اس وقت کی جو ریاست تھی اسوشن کی وجہ سے ان کو روکا گیا

اس پہ انہوں نے اپنے ارگنائزیشن کا نام عطااللہ مینگل اینڈ جو کمپنی ہے انہوں نے جو ملٹنٹ ارگنائزیشن بنائی ہیڈرڈ بائٹ جاوید مینگل بنائی یہ بات کوئی ڈکی چھپی بات نہیں

اپ کو بخوبی پتہ ہیانہوں نے بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات کی 2007 میں حب میں انہوں نے ایک بم بلاسٹ کیا جس کو انہوں نے رسپانسبلٹی جاوید مینگل والوں نے قبول کی اور اس میں 15 سویلینز بلوچ اور دوسرے لوگ شہید ہوئے تھے جب کے جاوید مینگل نے چائنیز پر حملہ کرنا تھا انہوں نے گزر گیا لیکن عام شہریوں کو شہری ان کا نشانہ بنی 15 سے زیادہ شہادتیں ہوئیں پاکستانیوں کی ادھر برگیڈیئر عزیز صاحب کو ان لوگوں نے 2007 میں دن دیہاڑے فیملی سمیت وڈھ میں ان پہ حملہ کیا

ان کے دہشت گردوں نے ان کو زخمی کیا اور لا تعداد ٹارگٹ کلنٹ کے واقعات ہیں میرے اپنے اوپر انہوں نے سوسائٹ بم اٹیک بی ایل اے مجید بریڈ اور جاوید مینگل کی لشکر بلوچستان نے مل کے 31 دسمبر 30 د سمبر 2011 کو کیا جس میں میرے 16 لوگ شہید ہوئے 30 کے قریب لوگ میرے زخمی ہوئے ان کا ایک طریقہ کار ہے یہ یہاں یہ جو سرداری نظام ہے یہ ہمیشہ سے اس کو بین الاقوامی طاقتیں چلاتی آ رہی ہیں بلوچستان کو توڑنے کے لیے پاکستان سے علیحدہ کرنے کے لیے تو جو بھی ان کے مضبوط سیاسی مخالف ہیں ان کو یہ دہشت گردی کا نشانہ بناتے رہے ہیں

خصوصا 9/11 کے بعد ایک ایجنڈے کے تحت مری مینگل اور بگٹی ایریا میں جیسے میر سرفراز ہیں ہمارے موجودہ وزیر اعلی بلوچستان ہے اور کلپر بگٹی جو خاندان ہے ان پر بہت بار حملہ ہوئے ہے

سرداری نظام نے ان کو ختم کرنے کے لیے باقی ان کے ہم نواں کو قتل کرنے کے لیے لا تعداد ان کی سینکڑوں میں شہادتیں اسی طریقے سے مری علاقے میں ہم دیکھیں جو بی ایل اے کے جو کرتا دھرتا سو کالڈ زمانہ سربراہ ہیں

انہوں نے اپنے مخالفین کو جیسے جسٹس نواز مری کو کوئٹہ میں شہید کیا جو چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تھے اور لا تعداد لوگوں کو اپنے علاقے میں یہاں ہمارے سابق منسٹر نصب اللہ مری صاحب ان کے بھائی کو ضلع ناظم تھے ان کو بھی بم بلاسٹ میں ائی ڈی بلاسٹ میں شہید کیا اور یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوتا رہا ہے یہ ایسا نہیں کہ ہم کہ ہم نیکسی جنگ کا بیڑا اٹھائیں یا بلوچستان میں ہم سب جو پاکستان جو پاکستان پہ یقین رکھتے ہیں اور ان کا ایمان ہے پاکستان پہ ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار ہیں صرف ہم پر نہیں بلکہ یہاں تو حملے ہوتے رہتے ہیں

تو جو ایک یہاں کا قبائلی طریقہ کار ہے ان کا سامنا کرنے کا ایک قدرتی طریقہ ہے اس طرح کا قتل عام ہو اور اس ریاست اپنی ذمہ داری نہ نبھائیں تو لوگ ڈرائیولی اپنے تحفظ کے لیے ضرور اٹھتے ہیں ہم نے ہمارے ہم نواں نے صرف اتنا کیا کہ ہم اٹھیں کہ کیسے وہ یعنی اپنا قتل عام ہم نے نہیں مانا باقی یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے کہ ان تنظیموں کا خاتمہ کریں میر شفیق الرحمان مینگل نے کہا کہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اختر مینگل کے بیانات اور سٹیٹمنٹس کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے

ریاست کے خلاف2004 میں سیرت چوک خضدار میں اختر مینگل نے خود تقریر کی پنجابیوں کو قتل کروں اور جس نے بلولا تو میرے نام لینا کہ اختر مینگل نے کہا تھا اور اختر مینگل کے یہ بیان بھی اون ریکارڈ ہے کہ اس نے تو بھارت شیطان بھی ہماری مدد کرے گا تو ہم اس کی مدد لیں گے اور گوادر میں2005 میں اختر مینگل کی سپیچ ان ریکارڈ کہ یہ بالکل پنجابی جو استعمال ہے

ہمارے لیے یہودی استعمال کی خلاف ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں یہ اس کا بھائی لشکر بلوچستان چلاتے ہے ان کا اقا ہیں جو ہندو بنیا اس لیے ان کا ریٹائرڈ میجر اہل لیکن یہ میڈیا پہ بتاتا ہے کہ ان کے نمبرز ہیں مینگل اور مری سردار بولتا ہے ان کے نمبر تو میرے پاس ہے ظاہری باتیں اشارے نہیں کی طرف ہے دیکھیں انہوں نے کہا کہ حسینی اور یزیدی فورسوں کا مقابلہ ہے

کیا کبھی بھی اس طرح کا باتل اور اس طرح کے لوگ وہ فوری طور پہ دنیا میں ایسے ہی فوراسٹ و نابود نہیں ہوئے ان کے پاس مختلف وسائل رہے ہیں جیسے میڈیا کی طاقت جو اپ نے کہا کہ ایک ناحق ایک ناکردہ گناہ کا ایک بہت ہی معزز میڈیا کے اینکر کی طرف سے ہم پہ الزام لگایا جاتا رہا تو ایک یہ جو بین الاقوامی طاقتوں کی ان کو پشت پناہی ہے اور ہم سنیے قسمت ہمارے ملک میں میڈیا کا ایک بہت مضبوط ہائوسیس انہوں نے یعنی اپنا گروپ بنا رکھا ہے جو انہوں نے لابین کی ہوئی ہے اور علاوہ ازی اس میں شک نہیں کہ ہماری ریاست کی جو پالیسیاں رہیں جو بھی پاکستان کے لیے جنہوں نے قربانیاں دی ہے جو وفادار رہے جنہوں نے اپنی نسلیں قربان کر دی تو ان کو اہمیت نہیں دی جاتی ان کی بات نہیں سنی جاتی اپ کے اب سامنے ہی ہے ابھی کوئٹہ میں 55 سے زیادہ پاکستانی شہید ہوئے اپ ہمارے میڈیا کو دیکھیں یہاں ہمارے سیاسی اشرافیہ کو دیکھیں ان کی تو کوئی اتنا زیادہ افسوس یا بازگشت یا ان کے معاملے میں میڈیا پہ بات نہیں ہو رہی جتنا کہ اختر مینگل کے استعفے کے اوپر ہو رہی ہے

جب میڈیا کا یہ حال رہے گا تو مظلوم پاکستانی کیا کرے گا تو میرے خیال میں اس میں مظلوم پاکستانیوں کا شہدا کے ورثہ کا یا جنہوں نے پاکستان کے لیے قربانیاں دی ہیں ان کا قصور نہیں وہ تو یہی کر سکتے تھے کہ جان ہتھیلی پہ لے کے اپنے وطن کے لیے قربانی دے سکتے تھے باقی دوسرے سٹیک ہولڈرز ہیں خود اسٹیبلشمنٹ ہے خود میڈیا ہے میرے خیال میں ان کی طرف دیکھا جائے وہاں کمزوریوں پہ زیادہ بہتر رہے گا دیکھیں جی ہماری کسی سے کوئی ذاتی رنجش نہیں ہمارے ایک نظریاتی اختلاف ہے

پاکستان ہمارا وطن ہے لا الہ الا اللہ کی بنیاد پہ بنا ہے اگر یہاں گڈ گورننس کے ایشوز رہے ہیں ائین اس اچھے طریقے سے عمل درامد نہیں ہوا تو اس کے لیے ایک زبردست سیاسی تحریک چل سکتی ہے اب کچھ لوگ بین الاقوامی طاقتوں کے کہنے پہ ایک زمانے میں یہی اخترمینگل جاوید مینگل ان کے والد ان کا پورا ٹبر یو ایس ایس ار کے ساتھ تھا کبھی راہ کے ساتھ کبھی موسات کے ساتھ یہ ڈھکی چھپی باتیں نہیں یہ اس کو ہم ثابت کر سکتے ہیں ایک یعنی ٹرائبل لیڈر کے طور پر میں ثابت کر سکتا ہوں

ریاست کے پاس تو زیادہ ثبوت موجود ہیں اب یہ بندوق کے زور پہ یہاں دہشت گردی کریں پاکستانیوں کا قتل عام کریں خود پنجابی ایلیٹ کے ساتھ رشتہ داری کریں یعنی وہاں اپنی بیٹی کی شادی کریں اور یہاں غریب پنجابیوں کا قتل عام کریں ا اور وہ بھی ئی ڈی کارڈ دیکھ کر تو اپ کیا سمجھتی ہیں یہ سیاسی طور پہ کوئی بات چیت کے یعنی بات چیت والا ان کا رویہ ہے وہ تو بندوق کی نال پہ بات کرتے ہیں اور دہشت گردی کے لیے لوگوں کو بھون ڈالنا قتل عام یہ ان کا شیوا ہے ہمارا کوئی ذاتی جھگڑا نہیں اج بھی یہ سارے لوگ دل سے پاکستان کو مانیں اور جو اپنی دہشتگردانہ روش ہے

اس کو ختم کریں جو سرداری نظام کے ذریعے یہ ظلم و ستم کر رہے ہیں تعلیمی پسماندگی کے لیے انقلابی اقدامات اس کے علاوہ گڈ گورننس یعنی غریب بلوچ یا براہوئی ترک یہاں کے پاکستانی شہری تک ریاست کے ہونے کا ثبوت کیسے پہنچے کہ ریاست ماں جیسی ہے جو ائین میں شہری کے حق دیے گئے ہیں اس وہ تمام حقوق ان کو دیے جائیں تو ٹیررزم ہے جس طریقے سے قتل عام لوگوں کا ہو رہا ہے ان کے خلاف ایک ٹھوس پالیسی اور بے رحمانہ جیسے ریاست کو کرنا چاہیے جیسے باقی ریاستیں اپنے باغیوں یا ٹیررسٹ سے ساتھ کرتی ہیں جی علاوہ ازی بلوچستان کی جو مخصوص بلوچستان کا جغرافیہ ہے انہوں نے کہا کہ جوبلوچستان کے حالات ہیں جو بلوچستان کی پسماندگی ہے اس کے حوالے سے ایک شارٹ ٹرم ایک مڈ ٹرم ایک لانگ ٹرم پالیسی لازمی بنانی ہوگی اور گڈ گورننس ہوگی تو یہ پالیسی اچھے طریقے سے امپلیمنٹ ہوگی اور عام بلوچ اور بروہی کو پہاڑوں میں رہتے ہے ریاست کے جو ایک شہری ہونے کا ان کا حق ہے ان تک پہنچے گا چاہے جی باتیں ہمیشہ اچھی کی گئی ہیں ہمیشہ حکومت نے یا اسٹیبلشمنٹ کے کسی سربراہ نے یعنی بڑی بھلی باتیں کہیں اچھی اصل بات ہے اس پہ عمل کا اگ لگی ہوئی ہے دہشت گردی کی جو انسرجنٹس را کے ایجنٹ ائے روز اور پچھلی جو صوبائی حکومتوں نیکرپشن اپنے عروج پہ رہی ہے

اپ نے نام لیا اپ اختر مینگل بنتا ہے اس کا بھائی جاوید مینگل کراچی ایئرپورٹ پہ ڈالر تو اس زمانے میں لیاقت جتوئی چیف منسٹر تھے تو بیج بچا کر کے اخبار کی ہیڈ لائنز میں یہ بات ائی تو یہ جو کرپشن ہے یہ صوبائی حکومت میں جو کرپشن رہی ہے پہلے سے بیڈ گورننس اسی وجہ سے زیادہ رہی ہے تو یہ جب ٹھیک اچھے طریقے سے استعمال ہوں گے لوگوں تک ان کا فائدہ پہنچے گا ہمارے موجودہ چیف منسٹر میر سرفراز بگٹی صاحب بڑے اچھا ویژن لے کے آگے چل رہے ہیں یہ بہت ہی تاریخی سٹیٹمنٹ ہے ہماری بچیاں اور بچے ہاورڈ اور اکسفورڈ میں پڑھیرا کے جو ایجنٹ افغانستان میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ ہماری بچیوں اور تعلیم سے اور وہ ایل ایل بی کر رہی تھی وہاں سے نکال کے جی تو یہ اگر اس جس طریقے سے شروع منسٹر بلوچستان نے بات کی ہمارے چیف اف ارمی سٹاف ہے آصیم منیر صاحب ہمارے پرائم منسٹر ہیں شہباز شریف صاحب اگر ایک ٹھوس ویژن کے ساتھ اور شارٹ ٹرم مڈ ٹرم لانگ ٹرم پالیسی کے ساتھ چلیں اور یہ پالیسی میں کونسسٹنسی رہے اس میں شک نہیں بلوچستان کا مسئلہ ہے تشویش ناک بات ہے

کہ جی اس کی باتیں اور بی ایل مجید برگیڈ اور بی ایل اے کی باتیں ایک ہی رخ میں جا رہی ہیں تو ا اس میں ایک بہت ہی تشویش ناک بات یہ ہے کہ اب بلوچ مسنگ پرسنز کے حوالے سے وہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جو اعتراضات ہیں اس کا تو ہر ذیشان پاکستانی کہے گا کہ بھی بھئی غلط باتیں ہر کسی کو عدالت کے ذریعے جو پاکستان کا ایک قانون ہے لا کے ذریعے پر کہا جائے تفتیشی ادارے ہمارے اس طریقے سے سزا دی جائے اگر اس میں خامیاں ہیں ہماری انویسٹیگیشن جو ایجنسیز ہیں ان کو دور کیا جائے جی یہ تو ٹھیک ہے

صحیح ہے ایڈریس ہونے چاہیے ایشوز لیکن اس طرح کے ایشوز جو یہاں انسرجنسی کو بڑھائیں بلا شبہ اس کے لیے ریاست کو ہمارے فیڈریشن پارٹیوں کو فیڈریشن کی پارٹیوں کو اور پولیٹیشنز کو سوچنا چاہیے کہ ہماری نوجوان نسل کو انہوں نے چھوڑا ہوا ہے

اور وہ کس رخ پہ جا رہے ہیں جو بلاشبہ کوئی اچھی بات نہیں س پاکستان کا جو اصل ایشو ہے وہ اٹھایا گیا ہے 1960 کی دہائی میں یہ خود کہتے ہیں یہ تو میں نہیں چاہتا تو ان ریکارڈ ہے یو ایس ایس ار اس کے پیچھے تھا میں انہوں نے یو ایس ایس ار کی بیک کردہ جو گورنمنٹ تو یہ تو ظاہری بات ہے انہوں نے ان کو پناہ دی اور اس ادھر سے ان کے بھارت ان کے یہ جو باغی لیڈروں کے جو دورے ہیں وہ ان اور ابھی اس کے بعد یہ 1980 سے لے کے آج تک کیوں خاموش رہے 90 کی دہائی میں وہ یہ سارے لوگ ائے یہاں پولیٹیکل پروسیس میں بھی انہوں نے حصہ لیا اچانک 9/ 11 کے بعد ان کو کیا ہو گیا

کہ یہ پہاڑوں پہ چڑھ گئے یہ نہیں کہ وہ نواب اکبر خان بگٹی کے واقعے کے بعد چڑھے 21 سے ان کی کاروائیاں شروع ہوئیں ہمیں اتنا جلدی نہیں بھلانا چاہیے اور میڈیا کے لوگ ہیں اپ کو ہم سے زیادہ بخوبی علم ہے کیا گریوینسز تھے کہ اچانک ان کو 2001 میں اٹھنا پڑا دہشت گردی کی کاروائیاں شروع کرنی پڑی تو اس میں شک نہیں فارن ہینڈ بیچ میں اس میں شک نہیں کہ جو ہمارا پڑوسی ہے بھارت وہ اس کے پیچھے تھا لیکن ہماری جو نااہلیوں نے اس چیز کو بڑھاوا دیا ا اور ان دہشت گرد جو گروہوں کو مضبوط ہونے کا موقع دیا تو جب ہم ا اچھی گورننس ہماری ہوگی ہم عوام تک نچلی سطح تک ہمارے حکمران پہنچیں گے

جو میں نے پہلے کہا شہری کے ہر شہری کے حقوق اس کو ملیں گے بلوچستان میں جو تعلیمی جو نظام کی جو بربادی ہے اس کو اچھے طریقے سے ایڈریس کیا جائے گا اس میں شک نہیں اس میں شک نہیں سرداروں جو جنہوں نے لوگوں کو دبایا ہوا ہے سرداری نظام نے انگریز کے بنائے ہوئے یا یہاں پہ جو بیرون بیرونی جو پاکستان دشمن ایجنسیوں کے الہ کار ہیں ان کو شکست ہوگی اور نوجوان ان کی طرف نہیں جائیں گی انہوں نے کہا کہ جو ریلیونس کی جو برسی ہوئی ان کے والد کی تو دنیا گواہ ہے کہ وہاں کیا تھا موجود کی ان کی کھوئی ہوئی ساکھ ان کی جو دوغلی اور دو کشتیوں کے ہمیشہ سوار رہے ہیں وہ یہ اپنے ڈوبتی ہوئی یہ جو نا کو تنکے کا سہارا دے انہوں پاکستانی میں یہی کہنا چاہوں گا کہ ہاں جی پاکستان کو سیکیورٹی کون دے گا

اگر وہ جانا کہ جی میرے ائی ڈی کارڈ پہ تو جو ایڈریس لکھا ہوا ہے پنجاب کا لکھا ہوا ہے وہ سافٹ ٹارگٹ کرتے ہیں نا بیس دہشت گردی ہے جس طرح کسی ذمہ دار ریاست کو اس کے لا انفورچمنٹ ایجنسیز کو ری ایکٹ کرنا چاہیے مجھے میں یہی امید کر سکتا ہوں کہ ہماری ریاست ہماری حکومتیں ہماری لائن فورسمنٹ ایجنسیز مضبوطی سے اس چیز پہ ری ایکٹ کریں گے

ا بہت ہو چکا دے ایت درست ائے اب اس چیز پہ سستی نہیں ہوگی نہ ایک تو یہ ملک غدار اور دہشت گرد ہیں جنہوں نے یہ قتل عام کیا دوسری طرف ان کے وہ حامی ہیں جو ہمارے قبائلی سیاسی معاشرے میں موجود ہیں مختلف لبادے اوڑ کے ان کا اصل کام ان دہشت گردوں کو سٹرینتھن کرنا ہے میڈیا میں اپنی لابی بنانا ہے اور ہمیشہ اس طرح کا ایک تاثر عام کرنا ایک فضا بنانا ہے کہ ریاست کے ادارے پیٹرول گورنمنٹ پروونشل گورنمنٹ ہمیشہ کنفیوژن میں رہے اور اس چیز میں ہم دیکھتے رہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے وہ کامیاب ہوتے رہے یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد قانون کے شکنجے سے ہمیشہ بچتے رہے ہیں

تو میں امید کرتا ہوں کہ اس کنفیوژن سے ہماری جو ریاست اس کے ادارے سارے لوگ نکلیں گے اور حکومت صحیح معنوں میں ڈلیور کریں گے چاہے دہشت گردوں کے خاتمے کی صورت میں چاہے پاکستانیوں کو سیکیورٹی دینے کے حوالے سے ہو چاہے غریب بلوچ برائی کو اس کی دہلیز تک اس کا حق پہنچانے کے حوالے سے ہو میں امید کرتا ہوں کہ یہ موجودہ جو ہماری پروونشل گورنمنٹ ہے یہ بڑے اچھے ہاتھوں میں ہے کہ یہ ایک تاریخی حکومت ثابت ہوگی جو ا یعنی یہ جو ملک دشمنوں کا جو پروپیگنڈا ہے

کہ جو احساس محرومی کا اس کو یہ اچھے طریقے سے ایڈریس کر کے ان کے پروپیگنڈوں کو ناکام بنائیں گے اور بلوچستان کا جو معاشرہ ہے

اور جو بلوچستان اگلے دو سال میں اگلے پانچ سال میں 10 سال میں پاکستان کا محفوظ ترین خطہ اور مضبوط ترین قلع انشااللہ بنے گا انہوں نے کہا کہ اپنے وطن پہ پاکستان پہ فخر ہے

اور یہ اختر یہ ہیر بیار یا اللہ نظر یا بشیر سے ان جیسوں کے کہنے اور جھوٹ بولنے سے ہم پہ کوئی فرق نہیں پڑتا ہمیں ہمارے افواج پہ بھی فخر ہے جو پاکستان کے نظریاتی اور جغرافیائی جو سرحدوں کے محافظ ہیں ان کے جوان جو شہید ہوتے ہیں وہ ہمارے شہید ہیں اگر ہم سویلینز بھی شہید ہوتے ہیں ہم ان کے شہید ہیں یہ ہمارا ملک ہے ہمارے ملک کی فوج ہے ہمیں ان سب پہ فخر ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *