کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے سماجی ویب سائٹ (ایکس)پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ نہایت ہی احترام کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ بلوچستان اور سندھ دونوں صوبوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، جہاں پرامن مظاہروں کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
لیاری اور ملیر کے بلوچ مرد، خواتین اور بچے، جو ہمیشہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے آئے ہیں، انہیں صوبائی حکومت کی جانب سے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ میرے استعفے پر افسوس کرنے کے بجائے، اگر بلوچستان میں ہونے والی زیادتیوں ، بلوچ نسل کشی اور ناانصافیوں پر توجہ دی جاتی اور ان کا ازالہ کیا جاتا،
تو آج افسوس کی ضرورت پیش نہ آتی۔لیکن افسوس کے اظہار سے کچھ نہیں ہوگا۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جیسی جماعتوں نے بھی اس ملک کو اس مقام تک پہنچانے میں برابر کا کردار ادا کیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ جماعتیں تبدیلی لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں اور مظلوم عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں۔
آپ سب نے ہمیں اس دن تک پہنچا دیا ہے کہ میرا ووٹر میرے استعفی پر خوشیاں منا رہا ہے۔ یہ میرا ووٹر اور بلوچستان کا فیصلہ ہے، اور یہ سوچنے کی ضرورت ہے
کہ انہیں اس مقام پر پہنچنے اور یہ مطالبہ کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کے پاسدار اور جمہوریہ نمائیندگان اور آئین کے ہوسِ اقتدار کی خاطر عسکری دل میں دھکیل ڈالا اور اس کے ڈوبنے کے انتظار میں ہیںوہ لوگ جو مجھ سے جمہوریت کی خاطر نظر ثانی کرنے پر زور دیتے ہیںکل رات پارلیمنٹ پر حملہ اور قانون سازوں کی گرفتاریاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہاں کوئی حقیقی جمہوریت نہیں ہے-
صرف مارشل لا کے بھیس میں سبز پرچم ہیں بلوچستان کے 4000 سے زائد افراد کوفورتھ شیڈول میں شامل کیا گیا ہے جس سے شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ کیا یہ واقعی پاکستان میں خصوصا بلوچستان میں جمہوریت کے پھلنے پھولنے کی علامت ہے یا یہ انتقامی کارروائی کے مترادف ہے؟ یہ اقدام ان کارروائیوں کے پیچھے اصل محرکات پر سوال اٹھاتا ہے۔