|

وقتِ اشاعت :   5 days پہلے

اسلام آباد : چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کسی ایک فرد کا نہیں ہوسکتا،سیاست میں ہونے کا مقصد حکومت میں رہنا نہیں، مسائل کا حل نہ نکال سکیں توحکومت میں نہیں ہونا چاہئے،پیپلز پارٹی گورنر راج کے حق میں نہیں ،قومی سلامتی کے معاملے پر پہلی بار اتفاق رائے نہیں ہورہا،کرپشن کے مقابلے کیلئے نیب ریفارمز کے نظام کو فالو کرنا پڑے گا۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کسی ایک فرد کا نہیں ہوسکتا، ایک بڑا فورم بنا ہے وہاں یہ فیصلہ کیا جاسکتاہے، اس پر پیپلزپارٹی کا مؤقف پارٹی کے منشور کے مطابق ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں تعیناتی کا جوعمل ہے وہ آف دی جوڈیشری، فار دی جوڈیشری، بائی دی جوڈیشری ہے، میں اس میں یک طرفہ کوئی تبدیلی نہیں لانا چاہوں گے، میں سمجھتا ہوں اس عمل میں تبدیلی لانا بہت ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو بھی فیصلے ہوں گیان کو جتنے اتفاق رائے سے کرسکتے ہیں اتنی ہی اس کو طاقت ملے گی۔انہوںنے کہاکہ ججز سے متعلق ترمیم جیسے معاملے پر اتفاق رائے کسی بھی پارلیمنٹ کیلئے چیلنج ہوتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ شہید بھٹو کو اب انصاف ملا، ان کی تیسری نسل کو انتظار کرنا پڑا کہ ججز انصاف دیں گے، عام پاکستانی کی کیا امید ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت پر پیپلزپارٹی حکومت نے 90 فیصد عمل درآمد کیا، عدلیہ کیلئے بھی میثاق جمہوریت میں تجاویز دیں، وہ جماعت کے منشور کا حصہ ہے، عدلیہ کو طاقتور بنانا چاہتے ہیں تاکہ کیسز کا بوجھ ختم ہو اور عام آدمی کو فوری انصاف ملے۔انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم سے متعلق کمیٹی میں ابھی تو صرف باتیں ہی ہورہی ہیں، کمیٹی میں پیپلزپارٹی کا مؤقف تھاکہ ہم چاہتے ہیں میثاق جمہوریت کی روح کو پھر سے قائم کریں، ہم مثبت طریقے سے اس عمل میں حصہ لینا چاہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سیاست میں ہونے کا مقصد یہ نہیں کہ حکومت میں رہیں، ہم اگرحکومت میں ہوں اور مسائل کا حل نہ نکال سکیں توحکومت میں نہیں ہونا چاہیے۔گورنر راج کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی گورنر راج کے حق میں ویسے تو نہیں ہوتی، اگر مجبور ہوکر گورنر راج لگایا جاتاہے تو ہم نے اٹھارویں ترمیم میں ایسی ترامیم کیں کہ صوبائی اسمبلی کے پاس یہ اختیار ہوکہ اگر گورنر راج لگ بھی جائے تو ہم ہمیشہ کیلئے گورنر راج نہیں لگنے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ قومی سلامتی کے معاملے پر بھی اتفاق رائے نہیں ہورہا، بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں، خیبرپختونخوا کے حالات اس سے بھی زیادہ برے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بہت خطرناک کہانیاں سامنے ا?رہی ہیں، وزیراعلیٰ کے پی اس پر اپنے گاؤں میں مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کا مقابلہ صوبائی اور وفاقی حکومت کو مل کر کرنا ہے، پہلی دفعہ نظرآرہاہے کہ نہ صرف قومی سلامتی کا سوال ہے بلکہ عوام کے لیے امن قائم کرنا خطرے میں ہے، پہلی دفعہ ہے کہ اس معاملے پربھی سیاست کھیلی جارہی ہے اور اتفاق رائے نہیں ہورہا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی سیاسی صورتحال سے ہر پاکستانی مایوس ہے، کوئی شہری اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ ہماری سیاست ٹوٹ چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمان کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے، قانون سازی کرنی چاہیے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنی چاہیے، ہم جب یہاں پہنچتے ہیں یا عام آدمی ٹی وی پر دیکھتا ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ نظام نہیں چل رہا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو نیب کیلئے ایک مؤقف اور حکومت میں آتے ہیں تو دوسرا مؤقف ہوتا ہے، اگرکرپشن کا مقابلہ کرنا ہے تو نیب ریفارمز کے نظام کو فالو کرنا پڑیگا۔انہوں نے کہا کہ آزاد صحافت بھی ضروری ہے اور ذمے دار صحافت بھی ضروری ہے، منتخب نمائندے جلسوں میں میڈیا کو گالیاں دیں گے تو ان سے کیا توقع رکھیں، میڈیا کا بھی کوئی معیار ہونا چاہیے کہ ہر جھوٹ نہ چلے، اگر کوئی غلط خبر چھپی ہے تو اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *