حکومت کی جانب سے آئینی ترامیم لانے کیلئے سرتوڑ کوششیں جاری ہیں، سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کیلئے رابطے کیے جارہے ہیں مگر حکومت مطلوبہ اکثریت فی الحال حاصل نہیں کرسکی ہے جب مطلوبہ اکثریت حکومت کے پاس ہوگی تو آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیا جائے گا ۔
حکومتی نمائندگان کی جانب سے بتایا جارہا ہے کہ آئینی ترامیم آنے میں ہفتہ دس دن لگ سکتے ہیں، پارلیمنٹ سے ترامیم منظور نہ ہونا حکومت کی ناکامی نہیں۔
بہرحال حکومتی سطح پر یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ان کے نمبرز پورے ہیں اور وہ پر امید بھی دکھائی دے رہے ہیں ۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ مسئلہ نمبر گیم کا نہیں ہے بلکہ مسودے میں کچھ نکات پر اتفاق کا ہے جو کہ ہر فریق کا حق ہے جب کہ مسودہ کبھی بھی سامنے نہیں آتا بلکہ پہلے یہ ایوان میں پیش ہوتا ہے۔
لیگی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے وقت مانگا ہے، مولانا بہت ساری چیزوں پر مطمئن تھے، مولانا کو ترامیم پر اتفاق ہے مگر بعض جزیات کی تفصیل کے مطالعے کے لیے وقت درکار ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پارلیمنٹ کے اجلاس میں آئینی ترامیم کا مسودہ پیش کیا جانا تھا مگرحکومت کو ترامیم کی منظوری کے لیے مطلوبہ اکثریت نہ ملنے پر اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس ملتوی کرنے پڑے۔
دستاویز کے مطابق مجوزہ ترمیمی بل میں آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز شامل ہے، آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف جانے پر ووٹ شمار کرنے کی ترمیم کی تجویز بھی ہے۔
آرٹیکل 17 میں ترمیم کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت کی تجویز اور آرٹیکل 175 اے کے تحت ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں بھی ترمیم کی تجویز شامل ہے۔
مجوزہ آئینی ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کیلئے نام قومی اسمبلی کی کمیٹی وزیراعظم کو دے گی۔
دستاویز کے مطابق قومی اسمبلی کی کمیٹی3 سینئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کرے گی، ججز کی تقرری کیلئے قومی اسمبلی کی کمیٹی 8 ارکان پر مشتمل ہو گی،کمیٹی ارکان کا انتخاب اسپیکر قومی اسمبلی تمام پارلیمانی پارٹیوں کے تناسب سے کریں گے، کمیٹی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 7 روز قبل سفارشات وزیراعظم کو دے گی۔
مجوزہ آئینی ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہو گی، سپریم کورٹ کا جج وفاقی آئینی عدالت میں 3 سال کیلئے تعینات ہو گا۔
بل میں ہائی کورٹس سے سو موٹو لینے کا اختیار واپس لینے اور ہائی کورٹ ججز کی ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں تبادلے کی تجویز بھی شامل ہے۔
بہرحال حکومت اپنی پوری زور لگا رہی ہے کہ مطلوبہ اکثریت حاصل کرلے، اس لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کم نشست رکھنے والی جماعتوں کی بھی اہمیت بڑھ گئی ہے حکومت ان جماعتوں کو لازمی منانے کیلئے کچھ دو اور کچھ لو کا فارمولہ اختیار کرے گی۔
اب دیکھتے ہیں کہ حکومت مطلوبہ اکثریت لینے میں کامیاب ہو جائے گی یا نہیں مگر سیاسی ماحول سے یہی تجزیہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت اکثریت حاصل کرلے گی مگر اس کیلئے حکومتی اتحاد کو دیگر سیاسی جماعتوں کی بہت سی فرمائشیں پوری کرنا ہونگی اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
حکومت کو آئینی ترامیم کی منظوری کیلئے مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں مشکلات، کم نشست والی جماعتیں بھی اہمیت اختیار کرگئیں!
وقتِ اشاعت : September 16 – 2024