|

وقتِ اشاعت :   6 hours پہلے

کوئٹہ : امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے کہاکہ ناجائز طریقے سے بننے والی حکومت کو اپنی بقاکے سوا کسی چیز کی فکر نہیں ۔ بلوچستان کے عوام حقوق سے محروم ،زندہ سلامت انسان لاپتہ ہیں ،وسائل سے مالامال صوبہ کے عوام نان شبینہ کے محتاج ہیں ۔

دیانت داری واخلاص اورنیک نیتی ہوتواہل بلوچستان کیساتھ پورے ملک کو بلوچستان کے وسائل سے مستفید کیا جاسکتاہے بلوچستان کے وسائل پر سب سے پہلے یہاں کے عوام کا حق ہے ممبرسازی مہم میں عوام جماعت اسلامی کے قافلے میں شامل ہوکر حقوق کے حصول ،نفاذ اسلام ،مسائل مشکلات بدعنوانی سے نجات کے سفر میں جماعت اسلامی کا ہم سفر بنیں غلط پالیسیوں ،بدعنوانی ،حقوق سے محرومی کی وجہ سے غریب آدمی کے لیے جینا مشکل ہو گیا ہے،

مگر حکمرانوں اور پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کوپرانی مفادپرستی کی سیاست بازی سے فرصت نہیں ہے۔ مفادات مراعات ،کرسی واقتدارکیلئے ملاقاتیںہو رہی ہیں، مگر عوام کسی کے ایجنڈے پر نہیں ہیں، ایک پارٹی کیلیے کسی کی ایکسٹینشن اہم ہے، دوسری پارٹی کو حکومت میں اپنا حصہ بڑھانا اور مزید مراعات حاصل کرنی ہیں، کسی کو سینیٹ کی سیٹیں اور گورنرشپ درکار ہے،کسی کو کچھ اور وزارتیں پکڑنی ہیں، کہیں من پسند فیصلے درکار ہیں، کہیں ہاری ہوئی سیٹیں فارم 47کی بنیاد پر جتوانی ہیں، جن کو جتوائی ہیں ان کو برقرار رکھنا ہے۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے جماعت اسلامی ضلع کوئٹہ کے زیر اہتمام رابطہ عوام مہم کے سلسلے میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لگایے گیے ممبرسازی کیمپ میں شرکاء سے آئن لائن خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہاکہ اقتدار، مفادات اور مراعات کے اس بیرحم کھیل میں عوام بہت پیچھے رہ گئے ہیں،بجلی گیس بلوں کی صورت میں برسنے والے بموں، بھاری ٹیکسز اور بڑھتی مہنگائی وبیروزگاری کیخلاف کوئی کھڑا ہو رہا ہے

نہ کسی کے ایجنڈے میں یہ شامل ہے،صرف جماعت اسلامی اس وقت پوری قوم کی ترجمانی،اور عوامی حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد کررہی ہے۔جماعت اسلامی نے بجلی بلوں میں کمی کے لیے راولپنڈی میں 14 روزہ تاریخی دھرنا دیا،اور حکومت کوباقاعدہ تحریری معاہدیپر مجبور کیا، پھر 28 اگست کو پاکستان کی تاریخ کی زبردست اور شاندار ہڑتال ہوئی۔ جماعت اسلامی اہل بلوچستان سمیت ملک کے عوام ،نوجوانوں ،علمائے کرام ،تاجروں اورصنعتکاروں کی آواز بنی ہے۔ حق دو عوام کو، تحریک کے پہلے مرحلے کو عوام بالخصوص نوجوانوں کی طرف سے زبردست پذیرائی ملی ہے۔ اس تحریک کا واحد مقصد عوام کے لیے ریلیف حاصل کرنا ہے۔چند خاندانوں پر مشتمل مٹھی بھرحکمران اشرافیہ مفادات کی ایک ڈوری سے بندھی ہے، حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں، ایک دوسریکومدد اور تحفظ فراہم کرتی ہے،جبکہ عوام کے پاس ظلم سہنیکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

جماعت اسلامی نے عوام کو متحد کرکے اس مافیا کے سامنے کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔جب لوگ اٹھ کھڑے ہوںتو کوئی ان کے سامنے ٹک نہیں سکتا۔ جماعت اسلامی اورعوام کا اتحاد رنگ لائے گا،حکمران اشرافیہ کو حق دینا پڑے گا یا رخصت ہونا پڑے گا۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ اور حل ان کے پاس نہیں ہے۔بجلی کے بلوں میں کمی، آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی،پیٹرول پر لیوی اور ٹیکسزمیں کمی، تنخواہوں پر اضافی ٹیکس، برآمدات اور صنعت و تجارت پر ناجائزٹیکس کی واپسی،لاپتہ افرادکی بازیابی، جاگیرداروں پر ٹیکس کا نفاذ، ارکان اسمبلی، فوجی افسران، ججز اور سرکاری اداروں کی لگژری گاڑیوں، مفت پیٹرول، بجلی کا خاتمہ، حق دو تحریک کے یہ مطالبات ہر شہری کے دل کی آواز ہیں۔ قوم مزید مہنگی بجلی اور آئی پی پیز کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔تنخواہ دار طبقہ اورتاجر زبردستی کا ٹیکس ادا نہیں کر سکتے۔ ریاستی سطح پر یہ معاشی دہشت گردی بند کرنی پڑے گی۔

حکمرانوں کو اپنی عیاشیاں ختم اور مراعات کم کرنی ہونی ہوں گی، فری پیٹرول فری بجلی کی سہولت کا خاتمہ کرناہوگا، گاڑیاں چھوٹی کرنی ہوں گی، بڑے بڑے جاگیرداروں پہ ٹیکس لگانا ہوگا،اور ان آئی پی پیز سے قوم کی جان چھڑانی ہوگی جنھیں دو ہزار ارب روپے سے زیادہ اس بجلی کے نام پر دیے جا رہے ہیں جو سرے سے بن ہی نہیں رہی۔ اور بات صرف کیپسٹی پیمنٹ کی نہیں بلکہ انکم ٹیکس میں بھی سینکڑوں ارب روپے کی چھوٹ حاصل کی گئی۔ تنخواہ دار طبقے سے انکم ٹیکس بڑھا چڑھا کر وصول کرنا لیکن آئی پی پیز کو چھوٹ دے دینا، یہ ستم مزید جاری نہیں رہ سکتا۔ تماشا یہ ہے کہ 2018 تک تو یہ بات ریکارڈ پر آ جاتی تھی کہ آئی پی پیز کو انکم ٹیکس میں کتنی رقم کی چھوٹ ملی،

اس کے بعد تو ان اعداد وشمار پر بھی پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت کا تو پہلے کہنا تھا کہ آئی پی پیز سے سرے سے کوئی بات ہی نہیں ہو سکتی مگر مسلسل عوامی دباو? کے بعد نہ صرف بات چیت ہو رہی ہے، بلکہ کچھ آئی پی پیز نے پاکستانی روپے میں پیمنٹ وصول کرنے اور ریٹ کم کرنے کا اعلان کیا ہے،

باقی آئی پی پیز کو بھی سامنے آنا اور قوم کا ساتھ دینا چاہیے، وہ یہ کریں گے تو پھر بیرونی کمپنیوں سے بھی بات ہو سکے گی۔عوامی حقوق کی بازیابی کی اس جدوجہد کو ہر صورت آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں اپنی ذات اورپارٹی کیلیے کچھ نہیں چاہیے، کوئی الیکشن سر پر نہیں کہ سیاسی فائدہ کا الزام دھرا جائے، نہ یہ سیٹوں، وزارتوںاور عہدوں کا معاملہ ہے،پرامن آئینی، قانونی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے عوام کو ریلیف دلانا ہی اولین ترجیح ہے۔

دھرنے کے بعدمعاہدے پر عملدرآمد کیلیے حکومت کے پاس 45 دن ہیں۔ اس دوران ہم ایک دن بھی گھر نہیں بیٹھے، مسلسل جلسے اور احتجاج کر رہے ہیں، ملک گیر تاریخی ہڑتال بھی ہوئی ہے، اگر حکومت معاہدے پر عمل نہیں کرے گی تو کراچی ،کوئٹہ سے اسلام آباد لانگ مارچ، ڈی چوک پر دھرنا،مزید ہڑتالیں اور ملک گیر احتجاج سمیت سارے آپشن موجود ہیں۔حکمران مسائل حل کریں اور عوام کو ریلیف دیں۔ایسا نہ ہو کہ پھر عوامی حقوق کی یہ تحریک حکومت گراو تحریک میں تبدیل ہو جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *