کوئٹہ : پاکستان یوتھ لائرز فورم فار جوڈیشل ریفارم کی صدر فاطمہ نذر ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم عدالتی نظام میں بہتری کی طرف ایک اہم اقدام ہے قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے
جس کا احترام کرتے ہیں آئینی عدالتوں کے قیام کا مجوزہ فیصلہ عدالتی نظام کی مضبوطی کا باعث بنے گا جس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے مزدلفہ ایڈووکیٹ ، کائنات ایڈووکیٹ، رومانہ ایڈووکیٹ، احسان شاہ ایڈووکیٹ، رخسانہ ایڈووکیٹ کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں سوموار کو پریس کانفرنس کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا
کہ ہمارے فورم کا مقصد ہی عدالتی نظام میں بہتری کی جدوجہد کرنا ہے پاکستان میں عدالتی نظام میں بہتری کی ضرورت ہے۔ دنیا کے 70 ممالک میں آئینی عدالتیں موجود ہیں اور ان عدالتوں کے ساتھ ساتھ وہاں سپریم کورٹس بھی اپنا کام کررہے ہیں آئینی عدالتیں سپریم کے علاوہ کام کرتی ہیں اور ان کے ججز پارلیمانی عمل کے ذریعے مقررہ مدت کے لئے لگائے جائیں۔ آئین کے آرٹیکل 239 کے تحت پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم کرسکتی ہے ہمی پارلیمان کے تقدس کو بھی دیکھنا ہے اور اس کا احترام کرنا ہے۔ 1973ء سے اب تک 25 ترامیم کی گئی ہے جن میں کوئی ترمیم آئین سے متصادم نہیں ہے۔
26 ویں آئینی ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 17, 48, 51, 63A, 106, 175, 175A, 181, 185, 186, 187, 200 اور دیگر میں ترمیم کی بات ہورہی ہے۔ مجوزہ آئینی عدالتیں آرٹیکل 184 اور 186 کے متعلقہ کیسز دیکھیں گی آئینی عدالتوں کا قیام کا مطالبہ 2006 کے چارٹر آف ڈیمو کریسی میں بھی تھا یہ عدالتیں بنیادی حقوق کے کسیز دیکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی عدالتوں سے سپریم کورٹ کا بوجھ کم ہوگا اس وقت سپریم کورٹ میں 60 ہزار سے زائد کیسز زیر التوا ہے۔ ججز کے تبادلے کا معاملہ بھی ایک عرصے سے لیگل اور پولیٹیکل سرکلر میں زیر بحث رہا ہے۔ آئینی عدالتوں میں40 فیصد ججز سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء جس سے لئے آئیں ہائی کورٹ کے ججز کی ٹرانسفر کے لئے آرٹیکل 200 میں بھی ترمیم کی جاسکتی ہے۔