|

وقتِ اشاعت :   September 24 – 2024

کوئٹہ: گورنر بلوچستان جعفرخان مندوخیل نے کہا یہ بات طے شدہ ہے کہ روایتی فریم ورک ہمارے علم اور عمل دونوں کو محدود کرتا ہے جبکہ سائنٹفک اپروچ اور تخلیقی اطلاق ہم سب کیلئے نئی راہیں متعین کرتے ہیں.

زندگی میں آوٹ دی باکس سوچنے اور جدت کاری کو اپنا کر ہم زراعت کے شعبے میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں، جدید زرعی طریقے اختیار کرنے سے فی ایکڑ پیداواری میں اضافہ کر سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئل سیڈ ڈیپارٹمنٹ کی نوجوانوں کیلئے جدید زراعت پر مبنی تربیت خوش آئند ہے. ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان کے آئل سیڈ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے گورنر ہاؤس کوئٹہ میں بلوچستان کے نوجوانوں کیلئے جدید زراعت پر مبنی ٹریننگ سے متعلق تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا.

اس موقع پر صوبائی پارلیمانی سیکرٹری نوابزادہ زرین مگسی، پرنسپل سیکرٹری ٹو گورنر بلوچستان ہاشم خان غلزئی،وائس چانسلر یونیورسٹی آف لورالائی پروفیسر ڈاکٹر احسان کاکڑ، یونیورسٹی آف بلوچستان کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ظہور بازئی، یونیورسٹی آف پنجگور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک ترین،

صوبائی سیکرٹری صاحبان، چیف ایگزیکٹو آفیسر BEEF ہاجرہ سہیل اور ڈاکٹر خیر محمد کاکڑ سمیت یونیورسٹی آف لورالائی کے اساتذہ کرام اور اسٹوڈنٹس کی ایک بڑی تعداد موجود تھی. تقسیمِ اسناد کی تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جدید زرعی تکنیکوں کو اپنا کر نہ صرف معیار اور مقدار کو بڑھایا جاسکتا ہے بلکہ ہم مجموعی طور پر نئے امکانات اور مواقع پیدا کر سکتے ہیں. یہی جذبہ ہمیں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت اور مشکلات کا نیا حل پیش کرنے

کے قابل بنائے گا. گویا یہ وقت روایتی حدود کو توڑنے اپنے مسائل کا از سرنو جائزہ لینے اور دوبارہ تعین کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ گورنر مندوخیل نے کہا

کہ ہمیں اپنی تمام پالیسیوں اور منصوبوں پر تنقیدی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا بلوچستان واقعی زراعت کیلئے موزوں خطہ ہے یا نہیں اگر یہ زراعت کیلئے موزوں ہے تو ہم جدید تقاضوں سے ہم آہنگ زراعت کے طریقہ کار کیوں نہیں اپناتے اگر یہ زراعت کیلئے موزوں نہیں ہے تو پھر متبادل میں ہم کن ذرائع اور مواقع کو بروئے کار لا سکتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہم آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی سبزیوں پیاز، آلو اور ٹماٹر کی کاشتکاری تک محدود ہیں جبکہ باغات انگور اور سیب وغیرہ تک محدود ہیں. مطلب کہنے کا یہ ہے کہ ہم ایسی فصلیں اور باغات کا انتظام کیوں نہیں کرتے جن کو کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے یا جن سے ہم کم وقت میں زیادہ پیسہ کما سکتے ہیں. انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں پانی کی صورتحال گمبھیر ہو چکی ہے. زیر زمین پانی کی سطح اوپر لانے کیلئے ہمیں ایک جامع حکمت عملی وضع کرنے ہوگی. اس ضمن میں زیتون کے درخت کو کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اسکی آمدن بہت زیادہ ہے. آخر میں گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل نے پاکستان کے آئل سیڈ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بلوچستان کے نوجوانوں کیلئے

جدید زراعت پر مبنی تربیت کو لائق تحسین قرار دیا اور یونیورسٹی آف لورالائی کے ابھرتے ہوئے ریسرچرز اینڈ اسٹوڈنٹس کو مبارکباد دی جنہوں نے زیتون کی نرسری کی پیداوار، زیتون کی ویلیو چین اور مشینری اور زیتون کے شعبے کی دیکھ بھال کی تربیت حاصل کی ہے. ہم امید کرتے ہیں کہ جدت، جدیدیت اور جدید کاری کا یہ سلسلہ آگے جاری و ساری رہیگا. تقسیم اسناد سے متعلق تقریب سے لورالائی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر احسان کاکڑ، ہاجرہ سہیل اور ڈاکٹر خیر محمد کاکڑ نے بھی خطاب کیا. آخر میں گورنر بلوچستان نے تقریب کے منتظمین اور تربیت پانے والے اسٹوڈنٹس میں یادگاری شیلڈز اور اسناد تقسیم کیے .