نیویارک : وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ایکس‘‘ پر پابندی غیر اعلانیہ نہیں، نگران دور حکومت میں ’’ایکس‘‘ پر پابندی قومی سلامتی کی وجہ سے عائد کی گئی، یہ آزادی اظہار رائے کو روکنے کی کوشش نہیں۔ یہ بات انہوں نے جمعہ کو یہاں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ علیحدگی پسند اور دہشت گرد گروپ ’’ایکس‘‘ پلیٹ فارم کو ملک کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، بی ایل اے کے دہشت گرد اپنی مہم ’’ایکس‘‘ پر چلاتے ہیں اور اپنی تمام دہشت گردی پر مبنی سرگرمیاں ’’ایکس‘‘ پر لائیو پوسٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایکس‘‘ پر پابندی کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے،
وزارت داخلہ نے اس پر اپنا جواب جمع کرایا ہے اور کہا ہے کہ علیحدگی پسند اور دہشت گرد گروپوں کو ’’ایکس‘‘ تک رسائی حاصل ہے اور وہ اس پلیٹ فارم کو ہمارے ملک کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد گروپوں کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دی جا سکتی، بطور پاکستانی ہم درخواست کر سکتے ہیں
کہ ان دہشت گردوں کی کارروائیوں کو روکنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد لاشیں گرانے، معصوم شہریوں کا خون بہانے کے لئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا غلط استعمال کر رہے ہیں، انہیں حق حاصل نہیں کہ وہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرسکیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سوشل میڈیا کے لئے ملک میں کوئی نہ کوئی نظام موجود ہونا چاہئے، ویب مینجمنٹ سسٹم پہلے بھی موجود تھا، اس نظام کے تحت سائبر سیکورٹی اور ڈیٹا سیکورٹی کو یقینی بنانے میں کوئی حرج نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی جیسا فورم موجود ہونا چاہئے جہاں عوام اپنی شکایات درج کر اسکیں، اس حوالے سے کابینہ میں ایک قانون آیا تھا، کابینہ نے یہ معاملہ موخر کر دیا اور اس قانون کی تیاری میں تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول صحافتی تنظیموں، میڈیا ہائوسز، پی ایف یو جے اور پولیٹیکل پارٹیوں کو آن بورڈ کرنے کی ہدایت کی تاکہ موثر قانون سازی ہو سکے جس پر عمل درآمد آسان ہو۔ انہوں نے کہا کہ بطور سیاسی کارکن کہوں گا کہ ’’ایکس‘‘ کھلنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ایکس پر پابندی کا مسئلہ صرف کمپلائنس کا ہے، ایکس کے ساتھ کمپلائنس کے معاملات بہتر ہو جائیں تو یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو سکتا ہے، ایکس پر پابندی کا معاملہ اس وقت عدالت میں زیر سماعت ہے، وزارت داخلہ اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔