|

وقتِ اشاعت :   September 28 – 2024


بلوچستان کے ضلع پشین میں 30 ماہ کے بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
قومی ادارہ صحت کے مطابق بچے میں پولیو وائرس کی قسم وی پی وی 1 کی تصدیق ہوئی ہے، اس کیس کے ساتھ بلوچستان سے رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز کی تعداد 15 تک پہنچ گئی ہے۔
2024 میں رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز کی مجموعی تعداد 22 ہو گئی ہے، جن میں سے 15 کیسز بلوچستان سے ہیں۔ سندھ سے 4 کیسز سامنے آئے ہیں، جبکہ خیبر پختونخوا، پنجاب، اور اسلام آباد میں ایک ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔
وزیر اعظم کی فوکل پرسن برائے انسداد پولیو عائشہ رضا فاروق کا حالیہ کیسز پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ بلوچستان میں آبادی کی نقل و حرکت، سیکیورٹی کے مسائل، اور غلط معلومات جیسے عوامل ویکسینیشن کی کوششوں میں نمایاں چیلنجز پیدا کر رہے ہیں۔

حکومت نے اپنے قومی پولیو خاتمے کے ہنگامی منصوبے کو اپ ڈیٹ کیا ہے، جس میں رسائی، مہم کے معیار، اور اہم علاقوں میں ویکسین کی قبولیت کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ سال کے اختتام سے قبل، ملک بھر میں گھر گھر ویکسینیشن مہم کا انعقاد کیا جائے گا تاکہ قوت مدافعت کی کمی کو دور کیا جا سکے اور وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

بہرحال بلوچستان میں حالیہ چند برسوں میں پولیو کیسز کی تعداد بڑھنے لگی ہے جس کی ایک وجہ پولیو ورکرز اور والدین کے درمیان ملی بھگت کے باعث قطرے نہ پلانا ہے جو رپورٹ بھی ہوچکی ہے جبکہ دوسرا اہم مسئلہ بلوچستان سے منسلک افغان سرحد خاص کر چمن بارڈر پر موثر مانیٹرنگ کانہ ہونا ہے ۔تیسرا اہم ترین مسئلہ والدین کی لاپرواہی ہے جو منفی پروپیگنڈے کا شکار ہوکر بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلاتے ۔ان عوامل کی وجہ سے بلوچستان میں خاص کر پولیو کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے جس سے بچے عمر بھر کی معذوری کا شکار ہورہے ہیں ۔سب کواس موذی مرض کو سنجیدگی کے ساتھ لینا چاہئے۔

بلوچستان میں یہ مسئلہ گھمبیر شکل اختیار کرتا جارہا ہے جس کے تدارک کیلئے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ ملک فری پولیو زون بن سکے۔ معاشرے کے ہرفرد کو پولیو کے خاتمے کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے تاکہ بچے عمر بھر کی معذوری سے بچ سکیں، لاپرواہی اور غفلت ایک بڑے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔