|

وقتِ اشاعت :   4 hours پہلے

کوئٹہ:  پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ ججز چاہتے ہیں کہ ملک میں میرا آئین اور میری مرضی چلے،وفاقی عدالتی نظام میں اصلاحات کا عمل عوام کو ریلیف دینے اور چاروں صوبوں کی برابر نمائندگی کے لیے ہے کسی سیاسی مقصد کے لیے نہیں کسی جج کا چہرہ کسی کو پسند نہیں تو اس پر کچھ نہیں ہوسکتا ،

ملک میں آئینی عدالتیں وقت کی ضرورت ہیں رات بارہ بجے عدالتیں کھولنے کا حق کسی کو نہیں ہونا چاہیے ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی، بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر افضل حریفال ایڈووکیٹ، صوبائی وزراء ، ججز اور وکلاء بھی موجود تھے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے مشن کو پورا کررہے ہیں جس کا مقصد ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی قائم کرنا ہے آئین میں آرٹیکل 6 موجود ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہورہاہے اگر جج خود آئین توڑیں تو ان کے لیے کون سزا تجویز کرے ججوں کی تعیناتی اور مدت کا تعین جج خود کرے تو یہ کیسا قانون ہے پیپلز پارٹی اپنے منشور کے مطابق آئینی جدوجہد کررہی ہے

تاکہ سپریم کورٹ میں چاروں صوبوں کو یکساں نمائندگی مل سکے صوبوں کے اپنی آئینی عدالتیں ہونی چاہیں تاکہ ان کے مسائل جلد حل ہوں اور کیسز التوا کا شکار نہ ہوں انہوں نے کہاکہ مجھے سمجھ نہیں آرہاہے کہ بلوچستان کے وکلا آئینی عدالتوں کی مخالفت کیوں کررہے ہیں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں بلکہ ایسی اصلاحات لانا چاہتے ہیں

جس میں چاروں صوبوں کو نمائندگی حاصل ہوسکے اور عام آدمی کو فوری انصاف کے ثمرات مل سکیں انہوں نے کہاکہ 73کے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو تھے بے نظیر شہید آئین کی بالادستی کے لیے 30سال لڑیں آمریت کے کالے قوانین کو صحیح قرار دینے کی کسی جج میں ہمت نہیں پیپلز پارٹی کے تمام بڑے ناموں نے عدالتی ظلم سہے اور میں نے اپنے والد کو بغیر کسی جرم کے 12 سال جیل میں دیکھا ۔

آصف زرداری کی مدت صدارت ختم ہونے کے بعد انکے خلاف مقدمات دوبارہ کھولے دئیے گئے ان کا کہنا تھاکہ وکلا کی تحریک کے بعد سابق چیف جسٹس نے مک مکاکیا آزاد عدلیہ تب اور اب کہا ں ہے عدالتی نظام کی تباہی میں سب سے بڑا ہاتھ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا تھا ماضی کے نعرے تھے

کہ ریاست ماں جیسی ہوگی مگر اب ریاست باپ بن گئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ میرا بلوچستان کے وکلاء کے ساتھ خاص اٹیچمنٹ ہے اور اس بات کی خوشی ہے کہ آج میں وکلاء کے درمیان ہوں بلوچستان کے وکلاء نے آمرانہ دور کا مقابلہ کیا اور سانحہ 8 اگست نے ملک کوہلا دیا تھا جب وکلاء کی بڑی قیادت اس کا نشانہ بنی آج جو وکلاء چیمپئن بنے ہیں

انہیں کچھ معلوم نہیں میں آپ لوگوں میں سے ہوں میرے خاندان کا سیاسی سفر کٹھ پتلی خان سے شروع نہیں ہوا میثاق جمہوریت کے نتیجے میں اٹھارویں ترمیم ملی اور کالے قانون کا خاتمہ ہوا میرے نانا ذوالفقار بھٹو کو جمہوریت کی وجہ سے پھانسی دی گئی اور جمہوریت کی بحالی کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید جیل میں تھی۔ میرے والد کو جیل میں تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی زبان کاٹی گئی لیکن انہوں نے جمہوریت پر سمجھوتہ نہیں کیا جب میرا خاندان مقید تھا اس وقت انصاف کہاں تھا میں نواسہ قائد ایوان کا ہوں افتخار چوہدری، اشفاق پرویز کیانی اور شجاع پاشا نے میثاق جمہوریت کے خلاف محاذ بنایا اور وکلاء تحریک کو استعمال کیا

انہوں نے کہا کہ عدلیہ ہمیشہ پارلیمنٹ پر حملہ آور رہی ہے۔

میرا نہیں وکلاء گروپ کا مخصوص ایجنڈا ہوسکتا ہے کیونکہ وفاقی آئینی عدالت عام آدمی کو فائدہ دے گی مفاہمت کا عمل چاروں صوبوں میں ہونا چاہئے آئینی عدالت کمیٹی میں سب کی نمائندگی ہوگی جج کا فیصلہ بھی یہی لوگ کریں گے ملک کے نظام کو مستحکم کرنے کے لئے یہ نظام ہے رات کے اندھیرے میں کوئی کام نہیں کرنا چاہتے پیپلزپارٹی نے ہمیشہ آئین کی بالادستی کی کوشش جاری رکھی ہے میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کے لئے مطلوبہ حمایت کی استعداد نہ تھی اور اتحادیوں نے بھی ساتھ نہ دیا پیپلزپارٹی اور اتحادی اب میثاق جمہوریت پر عملدرآمد چاہتے ہیں اس لئے پیپلزپارٹی تاخیر سے ترمیم لارہی ہے نظام میں بہتری کیلئے کوئی اور تجویز ہے

تو سامنے لائی جائے کسی ایک جج کی مدت اور تعیناتی کے لئے آئینی عدالت کا قیام عوام کے لئے ہے

وفاقی آئینی عدالت کے ثمرات جلد ملنے کی توقع ہے۔

ابتدائی ڈرافت بناکر کمیٹی بنائی گئی اور تمام جماعتوں کو نمائندگی تحریک انصاف کے چیئرمین نے جیل سے بیان دیکر سیاسی مفاد لینے کی کوشش کی گئی جبکہ پیپلزپارٹی آئینی عدالت کے قیام کے لئے مفاہمت کا ماحول پیدا کررہی ہے بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے وفاق کے سامنے مسائل رکھے ہیں

انہوں نے کہا کہ افسوس کہ ججوں کی ایگو چھوٹی ہے انہوں نے کہا کہ کرپشن کی بدولت فیصلے دینے والوں کا محاسبہ جوڈیشل کمیشن نہیں کرتا تو پارلیمانی کمیٹی کو اس کی تحقیقات کرنی چاہئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *