کوئٹہ: جامعہ بلوچستان کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد بازئی نے جامعہ کے اساتذہ سے یونیورسٹی آڈیٹوریم میں جامعہ کے تعلیمی، تحقیقی سرگرمیوں، مالی معاملات اور مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے خطاب کیا۔
جس میں جامعہ کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر عالم ترین، ڈین فیکلٹیز، شعبہ جات کے سربرہاں اور فیکلٹی ممبران کی کثیر تعداد موجود تھی۔وائس چانسلر نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ بلوچستان ملکی سطح کی اہم اور ایک قدیمی درسگاہ ہے
۔ جس کے قیام کو 1970 میں عملی جامہ پہنایا گیا۔ اور ان ادوار میں اس مادر علمی نے مختلف نشیب و فراز دیکھے ہیں۔
مگر صوبہ اور طلباء و طالبات کو علم کی روشنی سے آراستہ کیا ہے اور مجھے فخر ہے کہ میں نے اپنی عملی ذندگی کا آغاز ایک استاد کی حیثیت سے اسی مادر علمی سے کیا۔ اور وائس چانسلر کی زمہ داری اور ادارے کو علمی، تحقیقی اور ترقی کی جانب گامزن کرنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں بروکار لاؤں گا۔
انہوں نے کہا کہ جامعہ کے قیام کے 26برس بعد 1966میں یونیورسٹی ایکٹ بنائی گئی۔
اور بعد میں 2000میں ترمیم کرکے ایکٹ کو نئی شکل دی گئی کیونکہ اداروں کے سمت کا تعین پالیسی ساز ادارے ہی ترتیب دیتے ہیں۔
جو مستقبل کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اقدامات کو یقینی بناتے ہیں۔
اوران ادوار میں جامعہ نے مسائل اور مشکلات کو پدپشت رکھتے ہوئے منزل کی جانب گامزن کیا ہے۔
اور جامعہ کے اساتذہ ثابت قدم رہتے ہوئے علم و تحقیق کے فروغ کو پروان چڑھارہے ہیں۔
اور آج مالی مشکلات کے باوجود جامعہ کے تعلیمی، تحقیقی سرگرمیوں اور امتحانات کے انعقاد تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جامعہ کے مستقبل روشن اور ترقی کے زرائع بے شمار ہیں اور ترقی کے ان موقعوں کو بروکار لاتے ہوئے جامعہ کو بلندیوں تک پہنچانے کے لئے ہم سب کو ایک ٹیم ورک کے تحت اپنے پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروکار لانا ہوگا۔
مالی مسائل جو گزشتہ برسوں سے ملکی اعلیٰ تعلیمی اداروں کو درپیش ہے اسکی کئی وجوہات ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن جوتعلیمی اداروں کو فنڈ مہیا کرتی ہے۔
جس کی فنڈز میں 2018کے بعد کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اور 2024تک ساٹھ فیصد جامعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔جسکی بابت بڑی اور قدیمی تعلیمی اداروں کو مالی مشکلات درپیش آئے ہیں۔
اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن ایک فارمولے کے تحت اداروں کو فنڈز مہیا کرتی ہے۔
اور اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد ایچ ای سی صوبوں کو منتقل ہوئی۔ مگر ہمارے صوبے میں ابھی تک باقاعدہ طور پر اسے عمل میں نہیں لایا گیاہے۔
اب صوبائی حکومت بھی اسی سطح کا فارمولہ تشکیل دے رہی ہے تاکہ صوبے کے جامعات کے مالی مسائل کو حل کیا جاسکے۔ اور اس حوالے سے صوبائی حکومت نے تعلیمی فنڈز میں اضافہ کیا ہیتاکہ اس کے مستقبل میں مثبت اور روشن اثرات مرتب کئے جاسکیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ برسوں میں صوبے کے مختلف علاقوں میں یونیورسٹیزکے قیام کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے۔
کیونکہ جامعہ بلوچستان صوبے کی پرانی اور پہلی علمی درسگاہ ہے۔ جو آٹھ سو سے زائد بیشتر کو خطیر رقم مہیا کرتی ہے۔ نو ہزار سے زائد طلباو طالبات کو تعلیمی، رہائشی، آمدورفت اور غیر نصابی سہولتیں فراہم کرتی ہے۔
اور 138پروگرامز میں طلباو طالبات کو 487اساتذہ علم کے زیور سے آراستہ کرارہے ہیں۔
185سے زاہد اعلیٰ ڈگری کے حامل ہیں۔ جامعہ اپنی محدود وسائل میں رہتے ہوئے تعلیم و تحقیق کے فروغ میں اہم پیش رفت کی ہے۔ ملکی و بین الاقوامی جرنلز میں 632تحقیقی اشاعت اہمیت کا حامل ہے۔
اور درجہ بندی کے حوالے سے بھی جامعہ ترقی کی جانب گامزن ہے۔
اور ہمیں اپنے تعین کو پختہ امید کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں رکھنا ہے۔
طلبا و طالبات کو علمی، تربیتی و زہنی سمت کی جانب گامزن کرنے سمیت کی جانب گامزن کرنے سمیت کارآمد انسانی وسائل کی پیداوار میں اضافہ کرکے ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل کو یقینی بنانا ہے۔
اس دوران اساتذہ نے مختلف سوالات کئے اور جامعہ کی ترقی اور مالی معاملات کے حوالے سے اپنے رائے پیش کئے اور وائس چانسلر نے تمام اراکین کا شکریہ ادا کیا