ملک کا اہم اور حساس صوبہ خیبرپختونخواہ میں امن و امان کی صورتحال سب سے زیادہ مخدوش ہے جبکہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈا پور کی توجہ اپنے صوبے میں قیام امن اور گورننس کی بجائے اسلام آباد میں لشکر کشی پر مرکوز ہے ۔
پی ٹی آئی کے احتجاج میں کے پی کے وسائل استعمال ہورہے ہیں ،یہ صوبے کی عوام کے ساتھ زیادتی ہے جو بدامنی سمیت دیگر مسائل سے دوچار ہیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے لیکن عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ترقیاتی منصوبوں کا فقدان ہے ۔
کے پی کی عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہیں جبکہ وہاں کی عوام بنیادی سہولیات تک سے محروم ہیں۔
اگر تھوڑی سی توجہ وزیراعلیٰ کے پی احتجاجی سیاست کی بجائے صوبے کی گورننس پر دیں تو شاید کچھ حالات بدل جائیں مگر المیہ یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کی ترجیحات میں یہ شامل ہی نہیں بلکہ وہ آئے روز اسمبلی فلور اور دیگر فورمز پر دھمکی آمیز بیانات دیتے رہتے ہیں۔
سی ٹی ڈی رپورٹ واضح کرتی ہے کہ کے پی میں امن و امان کی صورتحال کس حد تک خراب ہے۔
خیبر پختونخواہ کے 27 اضلاع میں رواں سال اب تک دہشت گردی کے 497 واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں 1154 ملزمان کو نامزد کیا گیا۔
محکمہ انسداد دہشت گردی خیبرپختونخوا کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن میں رواں سال 209 دہشت گردوں کو ہلاک جبکہ 244 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا جبکہ 16 ملزمان کو عدالت سے سزائیں ملیں۔
سی ٹی ڈی رپورٹ کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی کے 52 واقعات میں 39 دہشت گرد ہلاک جبکہ 4 دہشت گرد گرفتار ہوئے۔
قبائلی ضلع خیبر میں رواں سال دہشت گردی کے 55 واقعات رونما ہوئے، جبکہ مختلف کارروائیوں میں 22 دہشت گرد ہلاک ہوئے اور 25 کو گرفتار کیا گیا۔
شمالی وزیرستان میں رواں سال دہشت گردی کے 54 واقعات رپورٹ ہوئے۔
سی ٹی ڈی کی مختلف کارروائیوں کے دوران 27 دہشت گرد ہلاک جبکہ 8 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔ ضلع ٹانک میں دہشت گردی کے 51 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ مختلف کارروائیوں کے دوران 28 دہشت گرد ہلاک ہوئے اور 6 کو گرفتار کیا گیا۔
پشاور میں رواں برس دہشت گردی کے 33 واقعات رونما ہوئے، سی ٹی ڈی کے آپریشنز میں 66 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا جبکہ 8 دہشت گرد سی ٹی ڈی کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔
جنوبی وزیرستان میں رواں سال دہشت گردی کے 39 واقعات ہوئے، علاقے میں 11 دہشت گرد ہلاک جبکہ 1 کو گرفتار کیا گیا۔
اسی طرح باجوڑ میں دہشت گردی کے 39 واقعات رپورٹ ہوئے، 5 دہشت گرد ہلاک جبکہ 8 گرفتار ہوئے۔
سی ٹی ڈی رپورٹ کے مطابق بنوں میں دہشت گردی کے 40 واقعات رونما ہوئے، مختلف کارروائیوں کے دوران 21 دہشت گرد گرفتار جبکہ 15 مارے گئے۔
شانگلہ میں رواں سال دہشت گردی کے 6 واقعات ہوئے جبکہ سی ٹی ڈی نے 33 دہشت گردوں کو گرفتار کیااور ایک دہشت گرد ہلاک ہوا۔
سوات میں رواں برس دہشت گردی کے 10 واقعات رپورٹ ہوئے، سی ٹی ڈی کی کارروائیوں میں 2 دہشت گرد ہلاک اور 3 گرفتار ہوئے۔
بونیر میں رواں سال دہشت گردی کے 2 واقعات میں 2 دہشت گرد ہلاک ہوئے جبکہ چارسدہ میں دہشت گردی کا ایک واقعہ رپورٹ ہوا جس میں 4 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا اور 4 گرفتار ہوئے۔
دیر لوئر میں رواں سال دہشت گردی کے 6 واقعات رونما ہوئے، سی ٹی ڈی نے 2 دہشت گردوں کو گرفتار کیا۔
اسی طرح ہنگو میں دہشت گردی کے 9 واقعات میں نامزد 2 ملزمان گرفتار ہوئے۔ رواں برس کرک میں دہشت گردی کے 5 واقعات ہوئے جبکہ مختلف آپریشنز میں 3 دہشتگرد گرفتار ہوئے، اسی طرح کوہاٹ میں دہشت گردی کے 5 واقعات ہوئے، سی ٹی ڈی نے 4 دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔سی ٹی ڈی کی رپورٹ کے مطابق کرم میں رواں سال دہشت گردی کے 17 واقعات رونما ہوئے، سی ٹی ڈی کی مختلف کارروائیوں کے دوران 6 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا اور ایک دہشت گرد سی ٹی ڈی اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک ہوا۔
رواں سال ضلع لکی مروت میں دہشت گردی کے 37 واقعات ہوئے، مختلف کارروائیوں کے دوران سی ٹی ڈی نے 14 دہشت گردوں کو ہلاک کیا جبکہ 8 دہشت گرد گرفتار ہوئے۔
مالاکنڈ میں دہشت گردی کے 4 واقعات رپورٹ ہوئے، سی ٹی ڈٰی نے 25 دہشت گردوں کو گرفتار کیا۔
مانسہرہ میں دہشت گردی کا 1 واقعہ رونما ہوا جبکہ کارروائی میں 4 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔
مردان میں رواں سال دہشت گردی کے 9 واقعات رونما ہوئے، مختلف کارروائیوں میں 11 دہشت گرد ہلاک جبکہ 9 گرفتار ہوئے۔
ضلع مہمند میں رواں سال دہشت گردی کے 8 واقعات رپورٹ ہوئے، مہمند میں 6 دہشت گردوں کو ہلاک جبکہ ایک کو گرفتار کیا گیا۔
نوشہرہ میں دہشت گردی کے 7 واقعات رونما ہوئے، سی ٹی ڈی کی کارروائیوں میں 5 دہشت گردوں کو گرفتار 2 کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
ضلع صوابی میں دہشت گردی کا ایک واقعہ رونما ہوا جس میں ایک شدت پسند ہلاک ہوا۔
اب ان اعداد و شمار کا صوبے کی گورننس کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو پی ٹی آئی کی سیاسی سمت اور کارکردگی واضح ہو جاتی ہے۔
عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ اس بنیاد پر دیا کہ صوبے میں مثالی امن کے ساتھ خوشحالی آئے مگر پی ٹی آئی کی سیاسی پالیسی اس کے برعکس نظر آتی ہے۔
کے پی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صوبے میں امن وامان سمیت عوام کی خدمت پر اپنی توانائیاں صرف کرے، احتجاجی سیاست کانقصان صوبے اور عوام کوہوتاہے مگر اس کی پرواہ پی ٹی آئی کو نہیں ۔ بہرحال انتشاری سیاست سے پی ٹی آئی اپنے سیاسی مقاصد حاصل نہیں کرسکے گی بلکہ نقصان اٹھائے گی۔
کے پی میں بدامنی اور بیڈ گورننس، وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی احتجاجی سیاست!

وقتِ اشاعت : October 9 – 2024