ملک میں عام شہری ہر چیز پر ٹیکس دیتی ہے، اپنی آمدن سے زائد چیزوں کا بوجھ دہائیوں سے برداشت کرتی آرہی ہے۔
یہ صورتحال عام لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہی ہے اور انہیں مالی مشکلات میں مبتلا کر رہی ہے۔
گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جب بھی اضافہ کیا جاتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ بوجھ عوام پر مہنگائی کی صورت میں پڑتا ہے۔
عوام اب بھی مالی مشکلات سے دوچار ہیں کیونکہ ان کی آمدن میں اضافہ نہیں ہورہا مگر اخراجات بڑھتے جارہے ہیں جن میں گھریلو اخراجات، گھر کا کرایہ، غذائی اجناس کی خریداری، بچوں کی اسکول اور وین کی فیسیں، سفری کرایہ، بجلی، گیس کے بھاری بھرکم بلز اور ان میں بلا جواز ٹیکسز شامل ہیں۔
ان تمام مشکلات کا موجودہ معاشی حالات کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ملک میں بڑے ٹیکس دہندگان میں عام شہری سر فہرست ہیں۔
جبکہ اہم سیاسی شخصیات، بڑے صنعتکار، کمپنیاں، اشرافیہ، سرکاری آفیسران تمام تر مراعات لینے کے باوجود ٹیکس ادائیگی میں ان کی شرح بہت کم ہے۔
اب یہ باتیں خود حکومتی نمائندگان واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ اگر نظام کو چلانے والے خود بگاڑ پیدا کرتے ہیں یا پھر ایک دوسرے کو رعایت دیتے ہیں تو اس کا بوجھ قومی خزانے پر لازمی پڑے گا۔
ٹیکس نیٹ میں جب تک بڑے نادہندگان کو نہیں لایا جائے گا، نظام بہتری کی طرف نہیں بڑھے گا۔
گزشتہ روز وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے انکشاف کیا کہ ملک میں اسٹیل سمیت مختلف کمپنیاں 29 ارب روپے کا ٹیکس فراڈ کر رہی ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر کے ساتھ پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ نے کہا کہ مجموعی طور پر 128 ارب روپے سیلز ٹیکس کی چوری کی جارہی ہے۔
ٹیکسٹائل بزنس میں 23 ارب روپے سے زائد، سیمنٹ کے لیے کوئلے کے بزنس میں 18 ارب روپے، بیٹریاں بنانے کے کاروبار میں 11 ارب اور بیوریجز کے کاروبار میں 15 ارب روپے کے سیلز ٹیکس کی چوری ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ کمپنیوں کا جھوٹ برداشت نہیں کرسکتے، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ انفورسمنٹ کریں۔
جی ڈی پی میں ٹیکسوں کا تناسب ساڑھے 13 فیصد تک بڑھانا ہے، سیلز ٹیکس کی چوری روکنی ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔
بہرحال یہ واضح ہوگیا ہے کہ اربوں روپے کی ٹیکس چوری بڑے پیمانے پر کمائی کرنے والے کررہے ہیں، عام شہری، تنخواہ دار، دیہاڑی دار طبقہ نہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ اربوں روپے چوری کرنے والے جو قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ملک سے کمائی کرکے باہر منتقل کرکے جائیدادیں بنارہے ہیں اور اپنے کاروبار کو وسعت دے رہے ہیں، انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔
تاکہ اربوں روپے کے نقصان سے بچا جاسکے۔