کوئٹہ: پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما اور چیف آف پشتون قبائل نواب ایاز خان جوگیزئی نے کہا کہ دکی دہشت گردی کا واقعہ افسوس ناک ہے۔
یہ پہلا اور آخری واقعہ نہیں، ان واقعات کا تسلسل جاری رہے گا۔
اس طرح ملک اور قوم کے معاملات کو نہیں چلایا جا سکتا۔
مقتدر حلقوں اور حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ایٹمی قوت اور مضبوط فوج ہونے کے باوجود ملک میں لوگوں کا قتل عام کرکے شکار گاہ بنا دیا گیا ہے۔
ہم اپنے نوجوانوں اور لوگوں کا بہتر مستقبل اور تحفظ چاہتے ہیں تاکہ پارلیمان مضبوط ہوں۔
فارم 47 کے حکمران ہر موقع پر ناکام نظر آرہے ہیں۔
مذمت کے علاوہ ان کے ہاتھ میں اختیار نہیں ہے۔
ان خیالات کا اظہار ہفتہ کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
اس موقع پر جماعت کے مرکزی رہنمائوں عبدالرحیم زیارتوال، عبدالقہار خان ودان، ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، سردار شفیق خان ترین، سید لیاقت آغا، عبدالرئوف لالا، ثالمنم خان، کبیر افغان سمیت دیگر بھی موجود تھے۔
نواب ایاز خان جوگیزئی نے کہا کہ جن علاقوں سے معدنیات نکلتی ہیں، حکومت ان سے حکومتی ٹیکس کے علاوہ سیکورٹی کے نام پر ادارے کروڑوں روپے ٹیکس لے رہے ہیں۔
وہ کس مد میں لیتے ہیں اور پھر اپنی ذمہ داری نبھانے سے بھی قاصر ہیں۔
لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جاتا اور ہرنائی، شاہرگ سمیت دیگر علاقوں سے ادارہ فی ٹن 250 روپے کوئلے کا ٹیکس وصول کر رہا ہے، جس کی مثال ملک کے دیگر معدنی علاقوں میں نہیں ملتی۔
ناانصافی جہاں بھی ہوگی، اس ملک کی معاشی حالت تبدیل نہیں ہوگی۔
مسائل کو حل کرنے کے لیے پارلیمان کو خود مختیار بنانا ہوگا۔
لیکن اس وقت عالم یہ ہے کہ خرابی کے ذمہ داروں کا نام لینے سے ہر ایک گریزاں ہے۔
تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی ترک کرنا ہوگی، اس کے بغیر پارلیمان دکھاوا ہے۔
اس میں ہونے والی آئینی ترامیم بھی تماشے کے علاوہ کچھ نہیں۔
جہاں بھی قدرتی وسائل ہیں، وہاں بدامنی کیوں ہے؟
انہوں نے کہا کہ دکی واقعہ کے لواحقین کو معاوضہ اور دیگر مراعات کے بارے میں کوئی گارنٹی نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے متاثرین دوبارہ احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔
ہمیں ایسے واقعات کے محرکات کو جان کر ان کا سدباب اور ان کی روک تھام کے لیے آواز اٹھانا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ بات کرکے معاملات کو بہتر بنانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ کالعدم تنظیم کی جانب سے واقعہ کی ذمہ داری کا خط بظاہر جعلی لگ رہا ہے، لیکن بی ایل اے سمیت تمام ذمہ داروں سے بات کریں گے۔
مہذب دنیا میں شکار کے بھی اصول ہوتے ہیں، لیکن ہمارے ملک میں آئے روز اس طرح انسانوں کو بے دردی سے قتل کرکے انسانوں کی شکار گاہ بنا دیا گیا ہے۔
عدم سہولتوں کی بنا پر یہاں کے لوگ جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر قرض پنجاب کے لیے نہیں بلکہ ملک بھر کے لیے لیا جاتا ہے۔
وہاں کالجز، موٹر وے، ایگریکلچر سمیت دیگر ترقیاتی منصوبے بناکر اپنے بچوں کی زندگی محفوظ بنارہے ہیں۔
اور بلوچستان کے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔
ہم جو زندگی گزار رہے ہیں یہ انسانوں والی زندگی نہیں بلکہ جانوروں والی ہے۔
ہمارا گھر، جان و مال اور بچے محفوظ نہیں ہیں۔
پشتونوں اور بلوچوں کے ساتھ جو رویہ اپنایا جارہا ہے، وہ بھائیوں والا نہیں بلکہ غلاموں والا ہے۔
ملک میں اس طرح کی زندگی گزارنا نہیں چاہتے۔
وسائل کی تقسیم منصفانہ نہیں، اس لیے ذمہ داروں کو سوچنا ہوگا۔
جس طرح گزشتہ روز 21 کانکنوں کو شہید اور 8 کو زخمی کیا گیا، یہ واقعات تواتر کے ساتھ صوبہ بھر میں ہورہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے سوائے مذمت کے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور نہ ہی اپنی ذمہ داری کا ادراک رکھتے ہوئے اس کو پورا کیا گیا۔
کیونکہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں، اصل اختیار زور آور قوتوں کے پاس ہے۔
جو ملک کی پالیسی اور اسمبلیاں تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ ججز سے بھی من پسند فیصلے کرواتے ہیں۔
انہیں اپنی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا، کیونکہ پہلے اس طرح کے واقعات کافی عرصے بعد رونما ہوتے تھے، اب آئے روز واقعات ہورہے ہیں۔
پاکستان ایک ایٹمی ملک اور مضبوط فوج رکھنے والی فیڈریشن ہے، اس لیے انہیں اپنے ہر ادارے کی بہتری اور سسٹم کی مضبوطی کے لیے اقدام اٹھانا ہوگا۔
اس وقت فیڈریشن کا ہر ادارہ اور سسٹم تباہ ہو چکا ہے۔
گزشتہ 76 سالوں سے آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے جا رہا ہے اور ادارہ تنزلی کا شکار ہے۔
سوویت یونین ایک ایٹمی ملک تھا، لیکن اس کو ایٹم بم نہیں بچا سکا اور اس کے 14 ٹکڑے ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ سیاستدان ایک دوسرے کو روڈ پر گھسیٹنے کی بات کرنے کے باوجود آج یکجا ہوکر ترامیم کرنے کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔
اور حکمران قرضہ لینے پر خوشی مناتے ہیں اور چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔
کیونکہ ہمارے ساتھ جو رویہ اپنایا جاتا ہے، اس سے ہمارے لوگوں کا زندگی گزارنا مشکل سے مشکل ترین ہوتا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دکی واقعہ میں کانکنوں کے علاوہ طالب علموں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔
سیکورٹی فورسز اور انتظامی فورسز بھی اپنے فرائض کی بجا آوری نبھانے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔
ملک کا پارلیمانی نظام بنانے والے بھی کس سمت جا رہے ہیں، انہیں بھی اپنی سمت درست کرنا ہوگی۔
حکومت نے شہداء کو فی کس 15 لاکھ اور زخمیوں کو فی کس 5 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔
ہم بحیثیت پارٹی متاثرین کے اس غم میں برابر شریک ہیں۔
ان کے ساتھ جاکر اظہار تعزیت کرنے کے ساتھ ساتھ دلجوئی کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت کو بھی سابقہ ادوار کی طرح اقتدار میں آنے کے موقع پر کام کرنے نہیں دیا گیا۔
ہم نے 2 سال قبل بنوں میں جرگہ بلایا، لیکن ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ جس کے بعد جرگوں کے فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی حکمت عملی طے نہیں پائی جا سکتی۔
اس کے علاوہ کوئٹہ میں بھی دو جرگے منعقد کئے۔
انہوں نے کہا کہ بدامنی کے واقعات کے پیچھے پیسوں کا گیم ہے، اس لیے پارلیمان خود مختار ہوگی تو مسائل حل ہوں گے۔
Leave a Reply