ملک کے دارالخلافہ اسلام آباد میں شنگھائی تعاون اجلاس کی تیاریاں جاری ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔
شنگھائی تعاون سربراہی اجلاس ایک غیر معمولی تقریب ہے جس میں چین، روس، بھارت سمیت دیگر ممالک کے سربراہان اور نمائندگان شرکت کریں گے۔
اب اس دوران اسلام آباد میں احتجاج، دھرنا، مظاہرے کی کال دینے کی نیت یہی ہوگی کہ افراتفری اور انتشار کا ماحول پیدا ہو۔
اس سے ملک کا خراب امیج اور غلط پیغام دنیا کو جائے گا۔
اس احتجاج کی کال کی توقع پہلے سے ہی تھی کیونکہ بانی پی ٹی آئی اپنی خواہشات کے عین مطابق حالات کو خراب کرنا چاہتا ہے۔
اب یہاں چند ایک واقعات کا موازنہ پی ٹی آئی کے دور حکومت سے کرنا ضروری ہے تاکہ یاددہانی ہوسکے کہ بانی پی ٹی آئی اپنے وزارت عظمیٰ کے دوران احتجاج، دھرنے کو بلیک میلنگ قرار دیتے تھے۔
3 جنوری 2021 کو بلوچستان کے ضلع بولان کے علاقے مچھ میں مسلح افراد نے ایک کمرے میں سوئے ہوئے 11 کان کنوں کو بے دردی سے قتل کردیا تھا۔
اس کے خلاف ہزارہ برادری سمیت دیگر جماعتیں، سول سوسائٹی سراپا احتجاج تھیں۔
لواحقین کی جانب سے اس وقت کے وزیراعظم بانی پی ٹی آئی کی آمد سے اپنے پیاروں کی تدفین کو مشروط کر رکھا تھا۔
جس پر بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہم نے ہزارہ برادری کے تمام مطالبات مان لیے ہیں لیکن کسی بھی وزیراعظم کو اس طرح بلیک میل نہیں کیا جاتا۔
یہ ایک انسانی حقوق کا مطالبہ تھا۔
ایک دوسرے بیان میں انہوں نے اپنے موقف سے حسب روایت یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی تحفظات پر دورہ نہیں کرسکتا۔
یہ ایک مثال ہے، اسی طرح درجنوں احتجاج جب پی ٹی آئی دور حکومت میں ہوئے تو بانی پی ٹی آئی ان احتجاج کرنے والوں کو ملک دشمن عناصر کا ایجنڈا قرار دیتے ہوئے سخت کارروائیوں کی دھمکی دیتے تھے۔
جب سے بانی پی ٹی آئی اقتدار سے باہر ہوئے ہیں، ان کا احتجاجی ایجنڈا چل رہا ہے۔
اسے جمہوری حق کہتے ہوئے ہر بار اسلام آباد میں حملہ آور ہو جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے 15 اکتوبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک پر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
پی ٹی آئی ترجمان کے مطابق 15 اکتوبر کو ڈی چوک پر احتجاج کے پیشِ نظر پنجاب کے اضلاع میں ہونے والے احتجاج منسوخ کردیے گئے ہیں۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ مینڈیٹ چور حکمران ظلم اور سفاکیت ترک کرنے پر آمادہ نظر نہیں آرہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ روز چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے ایک سرکلر جاری کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پارٹی احتجاج میں کوئی بھی ایم این اے اور ایم پی اے شرکت نہ کرے۔
یعنی قیادت احتجاج میں شرکت نہیں کرے گی۔
لیکن اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنے ہی چیئرمین کے سرکلر کے برعکس بیان جاری کرکے انہیں بھی احتجاج میں شرکت کا پابند بنائے۔
ویسے بھی پی ٹی آئی کے بیشتر احتجاجی دھرنوں، مظاہروں میں قیادت ویڈیو بیان جاری کرتی ہے۔
اپنے ورکروں اور ان کے بچوں، خواتین کو احتجاج میں شریک ہونے کی اپیل کرتی ہیں۔
جبکہ ان کے اپنے بچے، خواتین باہر نہیں نکلتے۔
یہ سوچنا انہی کارکنوں کی ذمہ داری ہے کہ لیڈر شپ کے عمل کو دیکھیں کہ وہ اور ان کے خاندان کے افراد کہاں کھڑے ہیں۔
بہرحال حکومت نے اسلام آباد میں فوج کو پہلے سے ہی طلب کر رکھی ہے تاکہ کسی بھی طرح کے انتشار، فساد سے دیگر سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر نمٹا جا سکے۔
مگر ایک بات واضح ہے کہ بانی پی ٹی آئی اقتدار کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
چاہے اس کے لئے نظام کو ہی کیوں نہ لپیٹ دیا جائے۔
مگر نظام لپیٹنے کی خواہش کے آثار دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔
نہ ہی بانی پی ٹی آئی کی خواہش کی تکمیل اور تسکین کا خواب پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔