کوئٹہ: شہید نواب اکبر خان بگٹی کے صاحبزادے نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل تمام بلوچ علاقوں کو یکجا کرکے جمہوری طریقے سے ریفرنڈم کرانے میں ہے۔
بلوچستان ریاست کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔
بلوچ، سندھی اور پشتونوں کو پارلیمانی نظام سے حقوق نہیں ملے۔
سیاسی جماعتیں اپنی ساکھ کو بچانے کے لیے ڈرامہ رچا رہے ہیں۔
سرفراز بگٹی کو سلطان راہی ہونا چاہیے، حرکتیں ان کی بٹی جیسی ہیں۔
ریاست بلوچوں و پشتونوں کو لڑانے کی سازش کر رہا ہے۔
دکی واقعہ میں ناکامی کے بعد ریاست کہیں اور بھی پشتون بلوچ کو ہوا دینا چاہتا ہے۔
بلوچ پیٹ پرست دبئی جا رہے ہیں، وہاں پیٹ پرستوں کا میلہ ہو رہا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے (یو این اے) نیوز ایجنسی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی نے کہا کہ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچستان کے حالات آگے بڑھ گئے ہیں۔
بلوچستان ریاست کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔
نواب اکبر بگٹی کو راستے سے ہٹانے کا جو کلکلیشن کیا گیا وہ غلط ثابت ہو رہا ہے۔
آزادی کی تحریک میں اب پڑھے لکھے لوگ شامل ہو رہے ہیں۔
دنیا میں کہیں جنگ لڑا جاتا ہے، وہاں لاشیں ایک دوسرے کے حوالے کرتے ہیں لیکن میرے والد کی لاش 19 سال بعد بھی نہیں ملی۔
دشمن بھی غیرتی ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ماہ رنگ بلوچ کے والد کو قتل کیا گیا۔
سیاسی جماعتیں لوٹ مار میں مصروف تھیں، اب ماہ رنگ بلوچ تحریک کی قیادت کر رہی ہے۔
سیاسی جماعتیں بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی ہیں۔
بلوچ، سندھی اور پشتونوں کو پارلیمانی نظام سے حقوق نہیں ملے۔
سیاسی جماعتیں اپنی ساکھ کو بچانے کے لیے ڈرامہ رچا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں جہاں پڑھا لکھا طبقہ ہو، وہاں انقلاب آتا ہے۔
لیکن پڑھے لکھے نوجوان جس طرف جا رہے ہیں، یہ قوم کے لیے بڑی قربانیاں ہیں۔
موجودہ حکومت کٹھ پتلیوں پر مشتمل ہے۔
وزیر اعلی کی کرسی پر بیٹھا شخص تنخواہ دار ہے، وہ کرسی بچانے کے لیے پتہ نہیں اور کیا کیا بولیں گے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ وزیر اعلی کو ایگریسیو ہونے کے لیے لایا گیا ہے۔
جام کمال بھی کوئی کمال نہیں تھا۔
پرامن بچے و بچیوں پر لاٹھی چارج، واٹر کینن یا تشدد کیا جاتا ہے۔
کونسے بچے باہر بھیجے جا رہے ہیں یا شاید پنجاب کے بچے بلوچستان کے نام پر بھیجے جا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماہ رنگ بلوچ کو کسی نے تحریک نہیں بنا کر دی۔
کسی کا بھائی تو کسی کا باپ لاپتہ ہے، جنہوں نے مل کر ایک تحریک شروع کی ہے۔
جتنے لوگ لاپتہ ہوں گے، وہ سارے ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ ہوں گے۔
بلوچستان میں بھی تو پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت میں کب انسانی حقوق کو تحفظ ملا ہے؟
سرفراز بگٹی کو سلطان راہی ہونا چاہیے، حرکتیں ان کی بٹی جیسی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریاست بلوچوں و پشتونوں کو لڑانے کی سازش کر رہا ہے۔
دکی واقعہ میں ناکامی کے بعد کہیں اور بھی پشتون بلوچ کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔
محمود خان اچکزئی کو 2013 میں پشتون بلوچ فساد کو ہوا دینے کے لیے لایا گیا تھا۔
لیکن محمود خان اچکزئی ایجنڈا بھول گیا۔
دکی واقعہ پشتون بلوچ کو لڑانے کی کڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ اپنی سرزمین پر بلوچ ہی رہے گا، بے شک دو صوبوں کی بجائے 4 صوبے بنائیں۔
نئے ضلع و نئے صوبے بنانا صرف اپنا دل خوش رکھنے کا ہنر ہے۔
انہوں نے کہا کہ دکھ اس وقت ہوتا ہے جب قومی میڈیا پر افغانیوں کو نمک حرام قرار دیا جاتا ہے۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ایک ملک کے سفیر کو امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔
بلوچستان میں کرسی پر کوئی بھی بیٹھ جائیں، لیکن حکومت مائی باپ کی ہوگی جو شو چلا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل جمہوری طریقے سے ریفرنڈم کرائیں۔
جنوبی پشتونخوا کو الگ کریں، جو پاکستان میں بلوچ علاقے ہیں انہیں بلوچستان میں شامل کیا جائے۔
اور پھر اقوام متحدہ کے تحت ریفرنڈم کروایا جائے کہ آپ آزاد رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
ووٹ کو کبھی عزت دیتے تو بنگالیوں کو دیتے، اس وقت جرنیلوں کے کچھ اور الفاظ تھے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ پیٹ پرست دبئی جا رہے ہیں، وہاں پیٹ پرستوں کا میلہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ منظور پشتین قابل احترام ہیں۔
Leave a Reply