بلوچستان میں رواں سال گندم کی ریکارڈ فصل ہونے کے باوجود آٹے کی قیمتوں میں اضافہ باعث تشویش ہے۔
کوئٹہ میں دو ہفتوں کے دوران آٹے کی فی کلو قیمت میں چار روپے اضافہ کردیا گیا جس کے بعد 20 کلو آٹے کا تھیلا مارکیٹ میں 80 روپے کے اضافے کے بعد 1880 روپے کا ہوگیا۔
کوئٹہ کی ضلعی انتظامیہ نے چند روز قبل 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 1800 مقرر کی تھی۔
فلور ملز مالکان کا کہنا ہے کہ پنجاب کی جانب سے گندم اور آٹے کی بین الاصوبائی نقل و حمل پر پابندی کی وجہ سے آٹے کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔
ظلم تو یہ ہے کہ آٹا جو عام آدمی کی بنیادی خوراک ہے، اس کی قیمت گزشتہ چند سالوں سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔
اس نے کم آمدنی والے طبقے کی پریشانیوں کو بڑھا دیا ہے، جس کا شکوہ شہری کرتے ہیں۔
جبکہ نان بائی من پسند قیمت پر کم وزن کی روٹی فروخت کرتے ہیں۔
جب ان کے خلاف ایکشن لیا جاتا ہے تو وہ احتجاج کے ذریعے بلیک میلنگ پر اتر آتے ہیں، جس سے شہریوں کی پریشانی مزید بڑھ جاتی ہے۔
کوئی اچھی خبر آٹے کی قیمت کے متعلق نہیں آتی بلکہ قیمتیں مزید بڑھنے کا اندیشہ رہتا ہے۔
ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ سیلاب کے باعث زرعی زمینوں کی تباہی، صوبائی حکومتوں کی طرف سے فلور ملز کے گندم کوٹہ میں کمی، گندم کی ذخیرہ اندوزی اور صوبائی حکومتوں کا گندم و آٹے کی فروخت میں غیر موثر کنٹرول بحران میں مسلسل اضافے کی وجہ بنتی ہے۔
بہرحال اجناس پر سرمایہ کاری کرنے والے منافع کمانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
جب بھی گندم کا بحران پیدا ہوتا ہے تو فوری طور پر آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔
مگر گندم کی ریکارڈ فصل ہونے کے باوجود قیمتوں میں کمی نہیں کی جاتی۔
گندم کی ذخیرہ اندوزی کے ذریعے بھی بڑی کمائی کی جاتی ہے اور اس کے پیچھے بااثر شخصیات ملوث ہوتے ہیں جن کے خلاف کبھی بھی کارروائی نہیں کی جاتی۔
ذخیرہ اندوزی پر اگر قابو پالیا جائے تو گندم کی قیمتیں نیچے آ سکتی ہیں لیکن عملی طور پر ایسا ہونا ناممکن ہے۔
کیونکہ بڑے بڑے گودام بااثر شخصیات کی ہیں جو سیاست سمیت دیگر اداروں سے وابستہ ہیں۔
ان پر کون ہاتھ ڈالے گا، کسی افسر میں اتنی جرات نہیں۔
گندم کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے کروڑوں روپے اضافی کماتے ہیں۔
اگر ابھی بڑے پیمانے پر گوداموں پر چھاپہ مار کارروائیوں کا آغاز کیا جائے تو ان کی گوداموں سے ہزاروں بوریاں برآمد ہوں گی۔
یہ مافیا موقع کے انتظار میں رہتے ہیں کہ گندم کا مصنوعی بحران پیدا ہو تو یہ فوری طور پر اپنا گندم مارکیٹ میں لاتے ہیں۔
اور گندم کی قیمتیں بڑھنے سے یہ دگنا منافع کماتے ہیں۔
صوبائی حکومتیں گندم کی قیمت کو اعتدال پر لانے کے لیے سبسڈی دیتی ہیں۔
لیکن اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود قیمتیں کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہیں۔
بلوچستان حکومت کو چاہئے کہ اس اہم مسئلے پر فوری کارروائی کرے تاکہ عوام کو سستا آٹا اور روٹی میسر ہو۔
اور گندم ذخیرہ کرنے اور مصنوعی بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
جس میں کسی تفریق اور دباؤ کو خاطر میں نہ لائی جائے۔