حکومت بلوچستان نے صوبے میں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ کی روک تھام کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق، پاک ایران سرحد سے متصل علاقوں میں پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ کو محدود کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
پہلے مرحلے میں ضلع گوادر کے زمینی اور سمندری راستوں سے پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
بلوچستان کے سرحدی اضلاع بشمول چاغی، نوشکی، واشک اور پنجگور میں ایرانی تیل کی کراسنگ پوائنٹس کے ذریعے ترسیل ہفتے میں صرف 4 روز تک ہی ہو سکے گی۔
جمعہ، ہفتہ اور اتوار کے روز ایرانی تیل کی ترسیل پر پابندی ہوگی۔
اطلاعات کے مطابق، حکومت مرحلہ وار ایرانی تیل کی اسمگلنگ پر پابندیوں میں اضافہ کرتی رہے گی، جس کے بعد صوبے کے سرحدی علاقوں کے علاوہ ہر جگہ ایرانی تیل کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی عائد ہوگی۔
اسمگلنگ میں استعمال ہونے والی گاڑیوں کو ضبط کرکے مقدمات بھی درج کیے جائیں گے۔
البتہ، ایرانی سرحد سے متصل علاقوں میں رجسٹریشن کے حامل افراد ہی ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی خرید و فروخت کرسکیں گے۔
بلوچستان حکومت کی جانب سے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ پر عائد پابندیوں کے خلاف پنجگور میں نجی تنظیموں کی جانب سے احتجاجی ریلیاں بھی نکالی گئیں۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ سرحدی علاقوں میں پہلے ہی روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ان علاقوں میں بسنے والے افراد کا واحد ذریعہ معاش دوطرفہ تجارت بالخصوص ایرانی تیل کی خرید و فروخت ہے۔
ہزاروں افراد ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کے کاروبار سے وابستہ ہیں، اگر حکومت ایرانی پیٹرول کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردے گی تو یہ سب لوگ کہاں جائیں گے؟
مظاہرین نے مزید کہا کہ حکومت نے پہلے پنجگور کے 2 کراسنگ پوائنٹس سے ساڑھے 3 ہزار رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد کو ڈھائی ہزار تک محدود کیا۔
پھر ہم سے کہا گیا کہ ہفتے میں ایک روز یعنی جمعہ کی چھٹی رکھی جائے گی، جو اب بڑھا کر 3 دن کر دی گئی ہے۔
ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کے کاروبار سے وابستہ افراد پر پابندیاں لگا کر کاروبار کو محدود کیا جا رہا ہے۔
ایرانی تیل کی ایک گاڑی سے 3 افراد کا روزگار منسلک ہے، ایسے میں گاڑیوں کی تعداد میں کمی اور پابندیوں سے لوگوں کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آ سکتی ہے۔
گزشتہ دنوں نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ نے اسمبلی اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر صوبے میں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی ترسیل اسمگلنگ ہے تو ماضی میں اداروں نے اس کی ترسیل کی اجازت اور گاڑیوں کی رجسٹریشن کا سلسلہ شروع کیا۔
جماعت اسلامی کے رکن مولانا ہدایت الرحمن نے ایوان سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لوگوں کو کاروبار کرنے نہیں دیا جا رہا۔
ڈپٹی کمشنر اور دیگر حکام تیل بردار گاڑیوں کو روڈ پر آنے نہیں دے رہے، ہمیں سرحد بند کرنے کے بجائے نوجوانوں کو گلے لگانا چاہیے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ڈاکٹر مالک بلوچ اور مولانا ہدایت الرحمن کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ غیرقانونی عمل پر قانون ساز اسمبلی میں بات نہ کی جائے۔
تیل کی اسمگلنگ کوئی روزگار نہیں، اس عمل سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
کیوں نہ اس کی روک تھام کرکے اسی رقم کو ان علاقوں کی ترقی و خوشحالی کے لیے خرچ کیا جائے؟
بہرحال، بلوچستان سے منسلک ایرانی سرحدوں سے پیٹرول، ڈیزل سمیت دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء لائی جاتی ہیں۔
جبکہ پاکستانی اشیاء بھی ایران لے جا کر فروخت کی جاتی ہیں، یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے مگر اسے قانونی شکل کبھی نہیں دی گئی۔
سرحدی علاقوں میں آباد لوگوں کا بڑا ذریعہ معاش اور تجارت اسی پر منحصر ہے۔
جب پابندی عائد ہوگی تو سرحدی علاقوں سے وابستہ کاروباری افراد اور عام لوگ بھی متاثر ہوں گے، جن سے ان کے گھر کا چولہا چلتا ہے۔
لہذا اس کے لیے کوئی راستہ تو نکالنا ہی پڑے گا۔
صوبائی اور وفاقی حکومت دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر کوئی فارمولہ طے کریں۔
ایران کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات موجود ہیں، سرحدی علاقوں میں ہونے والے کاروبار کے حوالے سے قانونی پالیسی لائی جائے۔
اس سے حکومت کا بھی نقصان نہ ہو اور سرحدی علاقوں کے لوگوں کا روزگار بھی چلتا رہے۔
کیونکہ لوگوں کو روزگار کی فراہمی میں آسانی پیدا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
اگر حکومت اپنی اس ذمہ داری کو پورا نہیں کر سکتی تو اسے لوگوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کا اختیار بھی نہیں دیا جا سکتا۔
کیونکہ اس کے اثرات انتہائی منفی مرتب ہوتے ہیں۔
لہذا کوئی بھی اقدام اٹھانے سے قبل اس کے اثرات کو بھی مد نظر رکھا جائے۔