|

وقتِ اشاعت :   October 19 – 2024

آئینی ترامیم پر پیپلز پارٹی، ن لیگ، جمعیت علمائے اسلام کے درمیان تقریباً اتفاق رائے پیدا ہوچکا ہے۔

اس ترمیمی بل کا مسودہ کبھی بھی پیش ہوسکتا ہے۔

اس وقت بھی ملاقاتوں اور مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔

پی ٹی آئی کے اراکین میں آئینی ترامیم پر بھی مختلف آراء پائی جاتی ہیں مگر حتمی فیصلہ بانی پی ٹی آئی نے ہی کرنا ہے۔

جو وہ فیصلہ کریں گے، سب نے وہی باتیں کرکے اعتراضات اٹھانے ہیں۔

بہرحال، بانی پی ٹی آئی اپنی جماعت کے رہنماؤں سے شدید ناراض ہیں۔

اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز عمران خان نے ملاقات کے لیے آئے پی ٹی آئی رہنماؤں کی سرزنش کی۔

پی ٹی آئی کا وفد آئینی ترامیم پر بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کے لیے اڈیالہ جیل گیا تھا۔

جیل ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو کھری کھری سنادی۔

عمران خان کا پارٹی رہنماؤں سے کہنا تھا کہ آپ لوگوں کا مجھے کوئی فائدہ نہیں۔

جیل سے نکلنے کے لیے جو پلان میں نے دیا تھا، اس پر کسی نے عمل نہیں کیا۔

ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ میں نے احتجاج جاری رکھنے کا کہا تھا۔

آپ کے تمام احتجاج فلاپ ہوئے۔

آپ سے کہا تھا کہ ایس سی او پر احتجاج کرنا ہے، لیکن کسی نے عمل نہیں کیا۔

میرے دئیے گئے منصوبے پر عمل کریں گے تو ہی باہر آ سکوں گا۔

جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے تحریک انصاف کے رہنماؤں کی ملاقات ادھوری رہی۔

بہرحال، آئینی ترامیم کے معاملے پر بانی پی ٹی آئی احتجاج اور دباؤ ڈالنے کی سیاست پر زور دیں گے۔

اس سے قطع نظر کہ اپنی تجاویز دیں کہ آئینی ترامیم میں کیا ہونا چاہئے اور کیا نہیں۔

جس طرح جمعیت کی جانب سے آئینی عدالت کی بجائے آئینی بینچ بنانے کی تجویز دی گئی ہے، جس پر پیپلز پارٹی نے اتفاق کیا ہے۔

اس کے علاوہ بھی مختلف تجاویز پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔

کسی بھی وقت آئینی ترامیم کو پیش کیا جا سکتا ہے۔

اب پی ٹی آئی جو بھی کرے گی، اس کا فیصلہ بانی پی ٹی آئی نے کرنا ہے۔

جس میں احتجاج کا عنصر حاوی رہنا ہے۔

بانی پی ٹی آئی کی تمام تر طاقت اور زور اپنی رہائی کے لیے ہے۔

مگر وہ اتنے کیسز میں پھنس چکے ہیں کہ ان کی رہائی جلدی نہیں ہونے والی۔

اس لیے انہوں نے اپنے رہنماؤں سے شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

اب اس دباؤ کو بڑھاتے ہوئے احتجاج کی کال سامنے آئے گی۔

پھر ایک بار اسلام آباد کی طرف کے پی سمیت دیگر علاقوں سے لشکر کشی کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی، چونکہ اب حکومت پر امید ہے کہ نمبرز پورے ہیں اور آئینی ترامیم کو منظور کیا جائے گا۔