|

وقتِ اشاعت :   October 22 – 2024

اسلام آباد، کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ قاسم رونجھو کا استعفی منظور کر لیا ہے۔

حکومتی وزیر خود مجوزہ آئینی ترمیم پر متفق نہیں تھے، تو اس سرکس کو کیا نام دیں؟

کیا یہ زرداری کا سرکس ہے، شریفوں کا سرکس یا آئی ایس آئی کا سرکس؟

آئینی ترامیم کا محرک نہ بلاول ہے اور نہ وہ بوٹ والا، بلکہ اصل قوتیں ہیں جو اس کے پیچھے ہیں۔

قاسم رونجھو اپنی آب بیتی سنانے کی کوشش کر رہے تھے۔

حکومت نے شرم کے باعث کورم توڑ دیا۔

سینٹ اسمبلی میں نامعلوم افراد با وردی آئے تھے، جنہوں نے قاسم رونجھو کو زبردستی ووٹ لینے پر مجبور کیا۔

راجہ ناصر عباس نے کہا کہ تمام پارٹیوں کو چلو بھر پانی میں ڈوب کر مرنا چاہیے۔

ہم ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر قاسم رونجھو اور راجہ ناصر عباس بھی شریک تھے۔

سردار اختر مینگل نے کہا کہ وہ سیاسی ممبران پارلیمان کو اٹھانے کی مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سارے واقعے پر کسی نے ایک لفظ تک نہیں کہا۔

اگر حکومت اس آئینی ترامیم کی منظوری لے لیتی ہے تو یہ تاریخ میں سیاہ الفاظ میں لکھی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ وہ سیاسی پارٹیاں جنہوں نے کہا کہ ہم نے دن رات کوشش کر کے آئینی ترامیم کو منظور کرایا، یہ ان کے سیاسی کیریئر پر ایک سیاہ دھبے کے مانند ہوگا۔

جب یہ مرحلہ ختم ہوا تو ہمارے دونوں سینیٹرز کو لایا گیا، لیکن وہ نہیں آئے۔

اگر وہ آتے تو دوسرے ممبران کی طرح آتے۔

جب انہیں سیاسی شیشوں میں بند گاڑیوں میں لایا گیا تو سیکیورٹی کا اتنا پروٹوکول تھا کہ شاید میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں وردی پہنائی گئی تھی، لیکن حقیقت میں اس باوردی کے پیچھے وہی وردی تھی جو دہشتگردی کی علامت ہے۔

یہ نامعلوم افراد وہ ہیں جو بلوچستان سے ہر روز لوگوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔

پارٹی میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اراکین چاہے کسی مجبوری کے تحت یا جبر کے تحت غیر آئینی ترامیم میں ووٹ دیں، وہ اپنا سینٹ سے استعفی پارٹی کو پہنچا دیں۔

قاسم رونجھو آج صبح سینٹ سیکرٹریٹ میں اپنے استعفی کے ساتھ پہنچے۔

ان کا ارادہ تھا کہ وہ سینٹ کے اجلاس میں اپنی باتیں کریں اور اپنا استعفی چیئرمین کے سامنے پیش کریں۔

لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو حسب روایت کھلبلی مچ گئی۔

انہیں پتہ تھا کہ ان کا چٹا بٹا سب کھول کر رکھ دوں گا اور یہ ریکارڈ کا حصہ بن جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ عرفان صدیقی بیٹھے ہوئے تھے، اور اچانک کوئی اشارہ آگیا۔

اس کے بعد پہلے اورز کو سسپینڈ کیا گیا اور 20 منٹ کا وقفہ دیا گیا۔

اسی دوران تمام ممبران ایک ایک کر کے نکلنے لگے۔

بی این پی کے سربراہ نے کہا کہ ترمیم کے لیے ہمارے دو لوگوں کو اٹھایا گیا۔

ہماری خاتون سینیٹر نے آنسو بہاتے ہوئے اپنی کہانی سنائی۔

انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کو چھپانے کی کیا ضرورت تھی؟

بچوں کو زدو کوب کر کے آئینی ترمیم منظور کرائی گئی۔

جن لوگوں نے آئینی ترمیم کے منظور ہونے پر خوشی منائی، انہوں نے اپنی سیاسی قبر کھودی ہے۔

20 منٹ کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا، اور کسی ایک ممبر نے کورم کی نشاندہی کی۔

یہ وہی ممبر تھا جو کچھ دن پہلے لاپتہ ہوا تھا۔

اس نے نشاندہی کی، لیکن ہمارے سینٹر کو اپنی بات کہنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

مجبوراً ہمیں دوبارہ میڈیا کے سامنے آنا پڑا۔

قاسم، جو پارٹی کے پارلیمانی لیڈر بھی ہیں، اپنی باتیں پیش کریں گے۔

یہ سیاسی پارٹیاں صرف اقتدار کی ہوس سے طاقتور بنی ہیں۔

ان کو معلوم ہے کہ اقتدار بغیر چاپلوسی کے حاصل نہیں ہوتا۔

انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ وہ ٹی وی ٹاک شو میں بوٹ اٹھا کر رکھتے تھے۔

آج وہی شخص آئینی ترامیم کے حق میں دلائل دے رہا ہے۔

بلاول بھٹو بھی اسی آئینی ترامیم کے حق میں دلائل دے رہے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آئینی ترمیم کا محرک نہ بلاول ہے اور نہ وہ بوٹ والا۔

قاسم رونجھو نے کہا کہ یہ زور اور لوگ تھے جنہوں نے مجھے چھ دن مہمان بنایا۔

چھ دن مچھروں کے کاٹنے سے مجھے ملیریا ہوگیا۔

میں پہلے ہی ڈائیلیسز کا مریض ہوں، اور اس حالت میں مجھے دو دفعہ ڈائلیسز کرانے لے جایا گیا۔

راجہ ناصر عباس نے کہا کہ میں ممبران پارلیمان کو اٹھانے کی مذمت کرتا ہوں۔

تمام پارٹیوں کو چلو بھر پانی میں ڈوب کر مرنا چاہیے۔

اس سارے واقعے پر کسی نے ایک لفظ تک نہیں کہا۔

ہم ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *