کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ و رکن قومی اسمبلی سردار اخترجان مینگل نے جی رابطے کے ویب سائٹ (ایکس)پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ مبارک ہو تمام سہولت کاروں کو کہ آپ نے اس ملک کو 50 سال پیچھے لے جانے میں کامیابی حاصل کی۔
اس کے ذمہ دار صرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہیں۔
اس ملک میں ایماندار لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
میں اب اپنی نئی نسل کے خواہشات کے مطابق چلوں گا۔
نئی نسل نے جو بھی فیصلہ کریں گے عالمی فورمز سے رجوع کریں گے۔
یہاں عوامی میدان میں ہم ان کے ساتھ ہوں گے۔
لشکر بھی تمہارا ہے، سردار بھی تمہارا ہے۔
تم جھوٹ کو سچ لکھ دو، اخبار بھی تمہارا ہے۔
خون مظلوم زیادہ نہیں بہنے والا، ظلم کا دور بہت دن نہیں رہنے والا۔
ان اندھیروں کا جگر چیر کے نور آئے گا۔
تم ہو فرعون تو موسی بھی ضرور آئے گا۔
پی ٹی وی نے میری پریس کانفرنس کیوں نشر نہیں کی؟
یہ ناانصافی ہے، جبکہ انہوں نے قاسم رونجھو کی نشر کر دی۔
میں نے یہ اسمبلی کے سامنے کیا تھا، لگتا ہے آپ سب 9 مئی کی پریس کانفرنسیں بھول چکے ہیں۔
شکریہ پی ٹی وی نے قاسم رونجھو کا پیغام کو نشر کرنے کے لیے۔
مجھے مزید کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
آپ نے خود ہی مجھے ثبوت فراہم کر دیا ہے۔
اب ہم صرف پاکستان کے مستقبل پر ہنس سکتے ہیں کیونکہ یہ کچھ اور نہیں بلکہ ایک بڑا مذاق بن چکا ہے۔
سب کو سچ معلوم ہے۔
آپ نے بلوچستان کھو دیا ہے۔
دریں اثناء بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی اعلامیہ میں مرکزی رہنما سابق سینٹر قاسم رونجھو کے ویڈیو پیغام پر رد عمل دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل و پارٹی کو ملکی سطح پر جو پذیرائی حاصل ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
پارٹی کا جو میڈیا ٹرائیل کیا جا رہا ہے اس سے ہر ذی شعور بخوبی آگاہ ہے کہ ان محرکات کا مقصد کیا ہے۔
پارٹی قیادت نے پہلے ہی اس بات کو عیاں کر دیا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم حکمرانوں کیلئے بدنما داغ ثابت ہو گی۔
عدلیہ کی آزادی پر قدغن اور سینیارٹی کو پاؤں تلے روندنے کیلئے راستہ کھولا گیا جو یقینی باعث تشویش ہے۔
ملکی و بین القوامی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیمیں، انصاف فراہم کرنے والے ادارے سب اپنے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
حالیہ پارلیمانی کمیٹی کے فیصلوں کو بھی مد نظر رکھا جائے تو یہ مہر ثبت ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کس لئے لائی گئی۔
پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے جو اپنے اصولی موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹی۔
جمہور اور عوام کے وسیع تر مفادات کو خاطر میں رکھتے ہوئے عوامی فیصلے کئے۔
پارٹی کا واضح دوٹوک غیر متزلزل موقف برداشت نہیں کیا جا رہا۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سابق سینیٹر قاسم رونجھو کی حالیہ ویڈیو اس بات کا ثبوت ہے کہ اب بھی دھونس، دھمکیوں، طاقت کا بے جا استعمال کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ 10 دنوں سے شہر اقتدار میں اراکین اسمبلی و سینیٹ کے ساتھ جو برتاؤ رکھا گیا وہ سب سے سامنے عیاں ہے۔
ایسے ویڈیو سے عوام کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکا جا سکتا۔
دریں اثنا بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی اعلامیہ میں پارٹی رہنما و سابق وزیر مملکت حاجی ہاشم نو تیزئی و دیگر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
نام نہاد جمہوری دور میں پر امن احتجاج پر بھی انتقامی کارروائی، مقدمات کا اندراج قابل مذمت ہے۔
ایسے عمل کو ناقابل برداشت قرار دیا گیا ہے۔
فوری طور پر حاجی ہاشم نو تیز سمیت دیگر پارٹی رہنماوں و کارکنوں کے خلاف درج مقدمہ کو ختم کیا جائے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کی زیر اہتمام شہید آغا خالد شاہ دلسوز کے بہمانہ قتل اور قاتلوں کی عدم گرفتاری کیخلاف پریس کلب کوئٹہ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
اس مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی کی مرکزی خواتین سیکرٹری شکیلہ نوید، دہوار سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر غلام نبی مری، چیئرمین جاوید بلوچ، ڈاکٹر علی احمد قمبرانی، آغا بیبرگ شاہ دلسوز، آغا خالد شاہ کی صاحبزادی شاہ سلطانہ دلسوز اور دیگر نے خطاب کیا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ آغا خالد شاہ دلسوز کے قتل کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود گرفتاری نہیں کی جا رہی ہے۔
قاتلوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے جس سے سماج میں عدم تحفظ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
آئینی ترمیم کیلئے سینیٹرز و ممبران اسمبلی کو مجبور کرکے پیش کیا جاتا ہے جس سے مخصوص طبقہ خود کو محفوظ کرنے کیلئے سیاسی عمل کو غیر جمہوری طریقے استعمال کرتے ہیں۔
جبکہ عام عوام انصاف اور اپنے ساتھ رونما غیر انسانی عمل کا شکار ہے۔
آغا خالد شاہ دلسوز شریف النفس، معاملہ فہم، خیرخواہ اور امن کے داعی تھے۔
وہ ایک سنجیدہ باوقار سیاسی خاندان کا چشم و چراغ تھے جو بلوچستان کی سیاست بالخصوص اہل علاقہ کے لیے ایک امید کا کرن تھے۔
انہیں دن دیہاڑے دندناتے ہوئے قاتلوں نے گھر کے باہر قتل کردیا جو ایک سیاسی قتل ہے۔
اس کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کیونکہ اس معاشی سائنسی صدی میں ایک باشعور سیاسی عمل کے لحاظ سے لیس رہنما کا قتل مکمل ایک سماج و قوم کا قتل سے تعبیر ہے۔
جو موجودہ سیاسی حالات کے بہاؤ میں ایک سانحہ ہے۔
اس کی ذمہ داری قاتلوں سے زیادہ انتظامیہ پر ہے کہ شہید آغا خالد شاہ کے قاتل ابھی تک کیوں قانون کے شکنجے سے آزاد ہیں۔
انتظامیہ آغا خالد شاہ کے معصوم بچوں و اہل خاندان کے احساس موجودگی دلاکر ان کے ذہنوں میں جاری انتشاری تناؤ کو بھانپ لیں اور اپنی غیر جانبداری کا احساس پیدا کریں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ قاتلوں کو گرفتار کیا جائے بصورت دیگر بی این پی اس ناروا عمل و قاتلوں کی گرفتاری کیلئے مزید سخت لائحہ عمل کا حق محفوظ رکھتی ہے۔
اس میں احتجاج اور قانونی چارہ جوئی کا آپشن موجود ہے۔
مزید اس مسئلے میں حالات کی ابتری کی ذمہ داری انتظامیہ اور محکمہ داخلہ بلوچستان پر عائد ہوگی۔
کیونکہ بلوچستان کے دارالحکومت میں اس طرح کے کھلم کھلا واقعات پر مجرمانہ خاموشی انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
اس سے عدم تحفظ کا خدشہ شدت سے بڑھ رہا ہے۔
مظاہرے میں سی ای سی ممبر چیئرمین واحد بلوچ، کوئٹہ کے ضلعی عہدہ داروں، میرجمال لانگ، ملک محی الدین لہڑی، پرنس رزاق بلوچ، میر اکرم بنگلزئی، منورہ سلطانہ بلوچ، ملک عطاء اللہ کاکڑ، مصطفیٰ سمالانی، میر غلام رسول مینگل، حاجی نذیر لانگو، حاجی ابراہیم پرکانی، حاجی وحید لہڑی، جاوید بلوچ، فیض اللہ بلوچ، ڈاکٹر غفار بنگزئی، رضا شائزی، میر کاول خان مری، جان محمد مینگل، سردار رحمت اللہ قیصرانی، ادریس پرکانی، اسد سفیر، شاہوانی، زعفران مینگل، حمید لانگو، عبدالرسول مینگل، میر شوکت لانگو، کامریڈ یونس بلوچ، کامریڈ نذیر دہوار، عامر شاہوانی، میروائس مینگل، بھاول خان مینگل سمیت رہنماؤں اور پارٹی ممبران نے شرکت کی۔