|

وقتِ اشاعت :   October 23 – 2024

تربت: بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ بلوچستان میں جاری ظلم و جبر سے نہ صرف عوام بلکہ تعلیمی ادارے اور طلباء بھی محفوظ نہیں ہیں۔

ہاسٹلز پر چھاپے، طلباء کو ہراساں کرنا اور انہیں جبری طور پر لاپتہ کرنا ایک منظم مہم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔طلباء کی جبری گمشدگیوں نے تعلیمی اداروں میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی ہے

اور طلباء اپنی تعلیمی سفر کو جاری رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

اس طرح کی کارروائیاں بلوچ طلباء کو تعلیم سے دور رکھنے اور ان کے مستقبل کو تباہ کرنے کی ایک سازش ہے۔

16 اکتوبر کی شام کو کراچی کے علاقے گلشن اقبال، بشیر ولیج میں بی ایس ایف جامعہ کراچی یونٹ کے ممبر بیبرگ بلوچ کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ جبری گمشدگی کا نشانہ بنانا بلوچ طلباء کے خلاف حالیہ کریک ڈاؤن کا تسلسل ہے۔ترجمان نے زور دے کر کہا کہ نوجوان قوموں کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں اور انہیں بغیر کسی جواز کے اٹھانا بلوچ قوم کے مستقبل کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔

جبکہ دنیا کے نوجوان تعلیمی اداروں میں جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق تکنیکی تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن ہمارے نوجوان دن بہ دن ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی مہینوں اور سالوں تک ٹارچر سیلوں میں اذیت سہنے کے بعد وہ نیم مردہ حالت میں گھر لوٹتے ہیں

یا ان کی مسخ شدہ لاشیں ان کے گھر والوں کو تحفے کے طور پر دی جاتی ہیں۔ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ ہم انسانی حقوق کی تمام تنظیموں، صحافی برادریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ طلبہ کی بازیابی کے لیے آواز بلند کریں اور اپنی انسان دوستی کا ثبوت دیں۔