|

وقتِ اشاعت :   October 23 – 2024

مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھنے لگی ہے جس کا نتیجہ خوفناک حملوں کی صورت میں سامنے آسکتا ہے جس سے خطے میں حالات خطرناک رخ اختیار کرینگے ۔
اس جنگی ماحول میں نئے بلاکس بنیں گے بڑی طاقتیں بھی اس جنگ سے خود کو دور نہیں رکھ سکیں گی۔
امریکہ اور مغربی یورپ کے بعض ممالک کو پہلے سے ہی اسرائیل کی حمایت حاصل ہے جبکہ چین اور روس جیسی بڑی طاقتیں ایران کی طرف اپنا جھکاؤ رکھتی ہیں۔
بڑی طاقتوں کی جنگ میں شامل ہونے سے جنگ کا دائرہ پھیلنے کا خطرہ ہے جو عالمی سطح تک جا سکتا ہے۔
گزشتہ روز اسرائیل نے حالیہ ایرانی حملوں کے جواب میں فیصلہ کن منصوبہ تیار کرلیا ہے جس کے تحت ایران کے اہم عہدیداروں کے گھروں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
عرب میڈیا رپورٹس میں اسرائیلی میڈیا کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیل ایرانی میزائل حملے کا فیصلہ کن جواب دینے کے لیے تیار ہے، اس منصوبے میں ایرانی عہدیداروں کی رہائش گاہوں پر حملے بھی شامل ہیں اور یہ حملے وزیراعظم نیتن یاہو کی رہائش گاہ پر حملے کی جوابی کارروائی ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج اور غیر ملکی انٹیلی جنس سروس کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوو گیلانٹ کورواں ماہ کے آغاز میں ایران کی طرف سے کیے گئے میزائل حملے کا جواب دینے کے لیے ایک تفصیلی منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔
منصوبے میں چند منتخب اہلکاروں کے گھروں سمیت، ایرانی تیل کی تنصیبات، فوجی تنصیبات اور سرکاری مقامات سمیت متعدد ممکنہ اہداف کا خاکہ شامل ہے جب کہ نیتن یاہو کی رہائش گاہ پر حالیہ ڈرون حملے کے بدلے میں ایرانی اہلکاروں کے گھروں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ منصوبے کی تفصیلات صرف چند عہدیداران کے پاس ہوں گی جب کہ ایران کے خلاف آپریشن میں شامل پائلٹس کو حملے سے کچھ دیر قبل ہی تفصیلات اور ہدف کی معلومات دی جائیں گی۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اس حملے میں طویل فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانیوالے میزائلوں کے استعمال کے ساتھ ساتھ لڑاکا طیارے بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ ہفتے کے روز لبنان کی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ذاتی رہائش گاہ پر ڈرون حملے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔
اس سے قبل رواں ماہ کے آغاز میں ایران نے اسرائیل پر حملہ کرتے ہوئے 400 بیلسٹک میزائل داغے تھے، ایران نے اسرائیل کی جانب 400 بیلسٹک میزائل اصفہان، تبریز، خرم آباد، کرج اور اراک سے فائر کیے تھے۔
اگر اسرائیل اس منصوبے کی تیاری کر چکا ہے تو ایران بھی اپنی دفاع میں اسرائیل پر بڑے پیمانے پر حملہ کرسکتاہے جو کہ وہ پہلے بھی کرچکا ہے مگر اس جنگ کے نقصانات بہت زیادہ ہوں گے، ویسے بھی جس طرح سے جنگ کی شدت بڑھتی جارہی ہے اس سے تیسری جنگ عظیم کی طرف حالات کو لے جانے کا خدشہ پیدا ہوچکا ہے ۔
اس جنگ سے پوری دنیا متاثر ہوسکتی ہے جنگ بندی کے حوالے سے اب تک کوئی بھی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے اور نہ ہی کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہورہا ہے ۔
اسرائیل تمام تر دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی جنگی جارحیت برقرار رکھتے ہوئے فلسطین پر روزانہ خوفناک حملے کررہا ہے جس سے آئے روز شہادتیں ہورہی ہیں۔
بہرحال اس جنگ کا خمیازہ عالمی طاقتوں کو بھی بھگتنا پڑے گا اس آگ سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔
آنے والے دن بہت اہم ہیں اگر اسرائیل نے ایران پر حملے شروع کئے تو ایران بھی اپنی تمام تر دفاعی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اسرائیل پر حملے کرے گا، جس سے یہ جنگ بہت بڑے انسانی بحران کو جنم دے گا اورمعیشت پر بھی اس کے بہت گہرے اثرات پڑینگے۔