اسلام آباد : بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرلیا گیا جس میں ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے ملک کے ایوان بالا (سینیٹ) کے عملے کو زدوکوب کیا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق اختر مینگل سمیت بی این پی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے تھانہ سیکریٹریٹ میں درج کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بی این پی کے رہنماؤں کے خلاف تھانہ سیکریٹریٹ میں فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر ) سینیٹ کے جوائنٹ سیکرٹری جمیل احمد کی مدعیت میں درج کی گئی ہے۔
اختر مینگل اور ساتھیوں کے خلاف دہشت گردی سمیت 7 دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
ایف آئی آر میں الزام ہے کہ سربراہ بی این پی اور ان کے ساتھیوں نے سینیٹ کے اسٹاف کو زد و کوب کیا۔
اس میں مزید الزام لگایا گیا کہ اختر مینگل اور ان کے ساتھی پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہوئے جبکہ ان افراد کے پاس اسلحہ بھی تھا۔
ایف آئی آر میں درخواست کی گئی ہے کہ مذکورہ ملزمان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اخترجان مینگل نے کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف کھڑے ہونے کی پاداش میں میرے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔
یہ میرے لیے ایک اعزاز ہے۔
سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے آج صبح 9 بجے میں دبئی روانہ ہو گیا تھا جیسے ہی میں وہاں پہنچا مجھے آپ لوگوں کی طرف سے یہ خوبصورت تحفہ ملا۔
اگر مجھے اس کا پہلے سے علم ہوتا تو میں اپنی پرواز ہی منسوخ کر دیتا۔
سردار اختر مینگل نے صدرآصف علی زرداری اور وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آب بتائیں جناب صدر اور وزیر اعظم، میری گرفتاری کے لیے آپ کس ائیرپورٹ پر لینڈنگ چاہتے ہیں؟
اسلام آباد، کوئٹہ، روالپنڈی یا پھر لاہور۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کی منظوری کے لئے ووٹ نہ دینے کی پاداش میں ہمارے 2 سینٹرز کو غائب کیا گیا۔
اور میں سینیٹ کی گیلری میں موجود تھا جب مجھے وہاں کے اسٹاف نے زبردستی دھکے دے کر نکالا کہ ہماری نوکری کا مسئلہ ہے آپ چلے جائیں۔
اس کی شکایت چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی اور سیکرٹری سینیٹ کو باقاعدہ آگاہ کیا لیکن انہوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔
سینیٹ میں بیٹھنے کیلئے گیلری اور لابی میں بھی اجازت نہیں دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ نیک نیتی سے ملک میں سیاست کی ہے لیکن حکمرانوں کی فطرت میں ہمارے ساتھ دغا اور بے وفائی کے ساتھ سلوک روا رکھا گیا ہے۔
اب پاکستان میں سیاست کی کوئی گنجائش نہیں۔
جن قوتوں نے میرے والد کی حکومت گرائی اور انہیں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا، ہمارے لئے اب ان حالات میں جب سینیٹرز منتخب نمائندوں کو غائب کرکے مرضی کے نتائج حاصل کئے جاتے ہوں تو ان حالات میں پاکستان میں سیاست کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ووٹروں کی رائے کو تبدیل کیا جاتا تھا اب سینیٹروں اور ایم اینز کی رائے کو تبدیل کیا جاتا ہے۔
اب یہ سیاست سیاست نہیں اور بوٹوں تلے دب چکی ہے۔
یہ سیاست نہیں ہے۔
قاضی فائز سے فطرتاً امید رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔
بلوچستان کا مسئلہ، چیف جسٹس، نہ کہ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے۔
اس کا حل مقتدرہ کے ہاتھ میں ہے۔