خضدار: صوبائی وزیر صحت بخت محمد کاکڑ اور صوبائی وزیر خزانہ و مائنز و منرلز میر شعیب نوشیروانی نے جھالاوان میڈیکل کالج خضدار اور ٹیچنگ ہسپتال خضدار کا دورہ کیا۔
جھالاوان میڈیکل کالج کے پرنسپل نے میڈیکل کالج کے خستہ حال عارضی بلڈنگ اور دیگر مشکلات کے بارے میں آگاہ کیا، جبکہ جھالاوان میڈیکل کالج کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے جے ایم سی کے زیر تعمیر بلڈنگ سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔
اس موقع پر صوبائی وزراء نے میڈیکل کالج کے مختلف شعبوں کا دورہ کیا اور طلباء و طالبات سے ان کے مسائل پر بات چیت کی۔
میڈیکل کالج کے طلباء و طالبات نے شکایات کے انبار لگا دیئے، جن کے حل کے لئے صوبائی وزراء نے کالج کے پرنسپل اور ڈپٹی کمشنر خضدار کو ہدایات دیں۔
طلباء و طالبات کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ ان کے سکالرشپ کا مسئلہ ایک ہفتے کے اندر حل کردیا جائے گا۔
دریں اثناء، انہوں نے ٹیچنگ ہسپتال خضدار کا دورہ بھی کیا جہاں میڈیکل سپریٹنڈنٹ نے انہیں درپیش مسائل سے متعلق بریفنگ دی۔
قبل ازیں، جیسے ہی صوبائی وزراء ہسپتال پہنچے، انہوں نے مریضوں کے ساتھ فرش پر بیٹھ کر علاج و معالجہ کی دستیاب سہولیات کے بارے میں پوچھا۔
مریضوں نے بتایا کہ ہسپتال میں ادویات اور علاج کی کوئی خاطر خواہ سہولیات دستیاب نہیں ہیں، جس پر صوبائی وزراء نے برہمی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی اولین کوشش ہے کہ غریب عوام کو علاج و معالجے کی معیاری سہولیات فراہم کی جائیں، اور اس مقصد کے لئے ہر سال کروڑوں روپیہ کا بجٹ فراہم کیا جاتا ہے۔
بعد ازاں، انہوں نے ایمرجنسی وارڈ، ڈائیلاسز وارڈ اور دیگر شعبوں کا معائنہ کیا اور مجموعی طور پر صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
صوبائی وزراء نے عوام کو علاج و معالجے کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
اس دوران رکن بلوچستان اسمبلی و اپوزیشن لیڈر میر یونس عزیز زہری، سیکریٹری صحت، ڈائریکٹر جنرل صحت، ڈپٹی کمشنر خضدار یاسر دشتی، ڈی ایچ او خضدار، ڈاکٹر محمد رفیق ساسولی، ڈپٹی مئیر خضدار جمیل قادر زہری اور دیگر سرکاری افسران بھی موجود تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی خضدار کے سینئر رہنما سردار عزیز محمد عمرانی، یونس گنگو، میر احمد خان گنگو، حاجی رسول بخش خدرانی، سکندر ھنینا، جلال گنگو سمیت آ ل پارٹیز شہری ایکشن کمیٹی کے رہنما قدیر زہری، سفر خان غلامانی، اشرف علی مینگل اور انجمن تاجران خضدار کے صدر حافظ حمید اللہ مینگل بھی اس موقع پر موجود تھے۔
Leave a Reply