|

وقتِ اشاعت :   October 24 – 2024

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے محکمہ کان کنی و معدنی ترقی کا اجلاس جمعرات کو چیئرمین غلام دستگیر بادینی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔

اجلاس میں فضل قادر، خیر جان بلوچ، زابد علی ریکی اور ملک نعیم بازئی کے علاوہ سیکرٹری اسمبلی طاہر شاہ کاکڑ اور ڈائریکٹر جنرل کان کنی و معدنی ترقی نے شرکت کی۔

محکمہ نے مجلس کو بتایا کہ ریکوڈک زیر تعمیر ہے اور 2028 تک آپریشنل ہوجائے گا۔

متعلقہ منصوبے کے شئیرز، غیر ملکی کمپنی، وفاقی اور بلوچستان حکومت کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کئے گئے ہیں، جس میں بلوچستان حکومت کو آمدن کا 25 فیصد وصول ہوگا۔

محکمے نے بتایا کہ ایسے مزید گیارہ منصوبے زیر غور ہیں لیکن شیئرز پر بات چیت جاری ہونے کی وجہ سے کام شروع نہیں ہوا۔

غیر ملکی سرمایہ کار صوبائی حکومت کو نظرانداز کرتے ہیں اور براہ راست وفاقی حکومت سے بات چیت کرتے ہیں۔

کمیٹی نے کوئلے کی کانوں میں سینکڑوں مزدوروں کی موت کے بعد مزدوروں کی حفاظت کے خدشات پر تبادلہ خیال کیا اور کہا کہ حفاظتی تدابیر پر کچھ نہیں کیا جاتا۔

محکمہ نے مجلس کو بتایا کہ مزدوروں کی جان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کان کے مالکان کے خلاف اب ایف آئی آر درج کی جا رہی ہیں۔

یہ بات یقینی بنائی جا رہی ہے کہ مالکان کانوں میں مزدور کی حفاظت کے لئے تمام حفاظتی انتظامات بروئے کار لائیں۔

ممبران نے لیبر کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے محکمہ کی آمدنی کا 10% مختص کرنے کی تجویز پیش کی۔

کمیٹی نے محکمہ کو زور دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے تربیتی پروگرام شروع کرنے چاہئیں، جس میں کان کنی اور معدنیات کی ترقی پر توجہ دی جائے۔

یہ مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع کے لیے تیار کرے گا اور صوبے کو اپنے وسائل سے فائدہ اٹھانے کے قابل بنائے گا۔

کمیٹی کے رکن زابد علی ریکی نے کہا کہ وفاقی حکومت صوبے کی غربت کو مدنظر رکھتے ہوئے ریکوڈک سے 25 فیصد آمدن بلوچستان کے غریب لوگوں کے لئے مختص کرے۔

اراکین اسمبلی نے 18 ویں ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے اس پر سوال اٹھایا اور کہا کہ یہ صوبوں کو اپنے وسائل کا انتظام کرنے کا اختیار دیتی ہے۔

متعلقہ محکمہ اس پر کام کریں اور غیرملکی سرمایہ کاروں سے خود بات چیت کریں۔

چیئرمین غلام دستگیر بادینی نے دوران اجلاس کہا کہ بلوچستان کے وسائل اس کے لوگوں کے ہیں اور یہ بہت ضروری ہے کہ ان وسائل سے یہاں کے لوگوں کو فائدہ حاصل ہو۔

انہوں نے کہا کہ قطع نظر اس کے کہ یہ وسائل صوبے میں کہاں پائے جاتے ہیں، مقامی لوگوں کو ترجیح دی جانی چاہیے۔

غلام دستگیر بادینی نے کہا کہ سیندک منصوبے سے پہلے چین کی حالت کیسی تھی، چین کو سیندک کے سونے کے ذخائر سے فائدہ ہوا ہے، لیکن سیندک کے مقامی لوگ ابھی بھی غریب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سی ایس آر وہاں کے لوگوں پر استعمال کرنی چاہیے اور بین الاقوامی قوانین پر عمل کرنا چاہیے۔

غلام دستگیر بادینی نے کہا کہ وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بلوچستان غریب ترین صوبوں میں سے ایک ہے، جو ناقابل قبول ہے۔

چیئرمین نے محکمے کو صوبے میں کام کرنے والی چھوٹی اور بڑی کان کنی کمپنیوں کے بارے میں تفصیل کمیٹی کو جمع کرنے کی ہدایت کی۔

انہوں نے شفافیت اور جوابدہی پر زور دیا، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ سی ایس آر فنڈز سے مقامی لوگوں کو فائدہ ہو۔

ان علاقوں کے نوجوانوں کو اسکالرشپ دی جانی چاہیے جہاں منصوبے چلائے جا رہے ہیں۔