|

وقتِ اشاعت :   October 27 – 2024

سپریم کورٹ میں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کے اعزاز میں الوداعی فْل کورٹ ریفرنس ہوا۔
فْل کورٹ ریفرنس میں نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سمیت سپریم کورٹ کے 12 موجودہ ججز نے شرکت کی۔
سینیئرترین جج جسٹس منصور علی شاہ سمیت 5 ججز الوداعی ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔
ریفرنس میں شرکت نہ کرنے والوں میں جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہرمن اللہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس ملک شہزادشامل ہیں۔
اس کے علاوہ 2 ایڈہاک ججز اور شریعت ایپلٹ بینچ کے دونوں ایڈہاک ججز الوداعی ریفرنس میں موجود تھے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی 30 ویں چیف جسٹس آف پاکستان بن گئے ہیں۔
فل کورٹ یفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے ایک دفعہ کال آئی کہ چیف جسٹس بلا رہے ہیں، مجھے لگا چیف جسٹس نے ڈانٹنے کے لیے بلایا ہے کیونکہ میں انگریزی اخبار میں لکھ رہا تھا مگر انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کوئی جج نہیں، آپ چیف جسٹس بنیں۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس بلوچستان بننے کے بعد زندگی بدل گئی، بلوچستان میں جو کام کیے ان کا لوگوں کو معلوم ہے، بلوچستان میں جو کیا اس میں اہلیہ کا کردار تھا لیکن اہلیہ نے کہا نام نہیں لایاجائیگا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کبھی کازلسٹ بنانے میں دخل نہیں کیا، ہو سکتا ہے بے پناہ فیصلے غلط کیے ہوں، ایک کاغذ ایک پارٹی کے لیے فائدہ اور ایک کے خلاف ہوتاہے، سچ کیا ہے صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ انصاف دینا ہمارا فرض ہے، میری آزادی میں کچھ گھنٹے رہ گئے ہیں۔
دوسری جانب جسٹس منصور علی شاہ نے ایک خط کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے الوادعی ریفرنس میں شریک نہ ہونے کی وجوہات بتاتے ہوئے لکھا کہ چیف جسٹس کا کردار عوام کے حقوق، عدلیہ کی آزادی اور سب کے لیے انصاف کا تحفظ کرنا ہوتا ہے، چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا الوداعی ریفرنس اٹینڈ نہ کرنے کی وجوہات مزید پریشان کن ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنس میں نہ جانے کے فیصلے پر خود کو مجبور پاتا ہوں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر رکھے عدلیہ پر بیرونی اثرات اور دباؤ سے لاتعلق رہے اور انہوں نے عدلیہ میں مداخلت کے دروازے کھول دئیے، جسٹس فائز عیسیٰ نے عدلیہ کا چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھا اور عدلیہ کا دفاع کرنے کی ہمت نہیں دکھائی، موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ کو کمزور کرنے والوں کو گراؤنڈ دیا۔
انہوں نے اپنے خط میں لکھا کہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ عدالتی رواداری و ہم آہنگی کیلئے لازمی احترام قائم کرنے میں ناکام رہے، وہ عدلیہ میں مداخلت پر ملی بھگت کے مرتکب رہے، انکی نظر میں عدلیہ کے فیصلوں کی کوئی قدر اور عزت نہیں۔
اپنے خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف جسٹس نے شرمناک انداز میں کہا کہ فیصلوں پر عملدرآمد نہ کیا جائے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کی، ججز میں تفریق کے اثرات تا دیر عدلیہ پر رہیں گے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ فل کورٹ ریفرنس میں شرکت اور ایسے دور کا جشن منانا پیغام دے گا کہ چیف جسٹس اپنے ادارے کو نیچا کر سکتا ہے، ادارے کو نیچا کرنے کے باوجود سمجھا جائیگا کہ ایسا چیف جسٹس عدلیہ کے لیے معزز خدمت گار رہاہے، میں ایسے چیف جسٹس کے ریفرنس میں شرکت نہیں کرسکتا۔ بہرحال عدلیہ میں تقسیم پہلے سے ہی موجود تھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں اختلافات کھل کر سامنے آئے،سینئر ججز بعض کیسزمیں بینچ پر بیٹھنے سے بھی معذرت کی جس کی ایک وجہ شاید 26 ویں آئینی ترمیم ہے مگر عدلیہ کے اندر تقسیم ادارے کی ساکھ کو متاثر کرنے کے ساتھ انصاف کی فراہمی پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گی۔
اب نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اپنے کورٹ کو کس طرح چلائینگے اور ساتھی ججز کے ساتھ ان کے تعلقات کیسے رہینگے یہ چند دنوں میں واضح ہو جائے گاتاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ ساتھی ججز کے اختلافات شدید تھے جس کی ایک واضح جھلک سینئر ججز کی فل کورٹ ریفرنس میں عدم شرکت اور جسٹس منصور علی شاہ کا خط ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *