|

وقتِ اشاعت :   3 days پہلے

کوئٹہ :  آل مکران رخشان بارڈر ٹریڈ الائنس کے زیر اہتمام بارڈر بندش کے خلاف مکران اور رخشان ڈویژن کے لوگوں نے بلوچستان اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا، جس میں بلوچستان اسمبلی کے اپوزیشن اراکین نے شرکت کی۔

اس دھرنے میں مولانا ہدایت الرحمن، رحمت صالح بلوچ، میر اسد اللہ بلوچ، میر زابد ریکی، اصغر ترین سمیت اپوزیشن کے دیگر اراکین بھی شریک تھے۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کو روزگار دینے کی بجائے ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔

یکطرفہ فیصلہ کرکے بارڈر ٹریڈ کو بند کردیا گیا، حالانکہ بارڈر ٹریڈ سے چمن بارڈر سے لیکر گوادر تک بلوچستان کے 30 لاکھ لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔

لیکن حکومت اور ریاست کی جانب سے لاکھوں لوگوں کے روزگار کو مستقل بنانے کی بجائے بند کردیا گیا، اور ان بے روزگار ہونے والوں کے لئے کوئی دوسرا روزگار کا ذریعہ نہیں بنایا گیا۔

بارڈر ٹریڈ سے وابستہ لاکھوں لوگوں کا کاروبار ٹھپ ہونے سے لاکھوں گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے اور ان کے اہلخانہ نان شبینہ کے محتاج ہوگئے۔

ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو روزگار کے مواقع دیں، لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

بلوچستان میں روزگار کے ذرائع اور انڈسٹری نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت، لائیو سٹاک، تجارت اور بارڈر ٹریڈ سے جڑا ہوا ہے۔

لیکن حکومت کو بلوچستان میں بسنے والے لاکھوں لوگوں کے بے روزگار ہونے سے کوئی سروکار نہیں۔

حکمران بلوچستان اور یہاں پر رہنے والے سوا کروڑ لوگوں سے کوئی ہمدردی نہیں، انہیں صرف بلوچستان کی سرزمین اور اس میں چھپے ہوئے وسائل سے غرض ہے۔

ہم عوام کے منتخب نمائندے ہیں، حکومت کو چاہئے کہ وہ وفاقی حکومت کے ساتھ رابطہ کرکے حکومتی اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے۔

یہ کمیٹی وزیر اعظم سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقات کرکے اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے سنجیدگی کے ساتھ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھائے۔

تاکہ بے روزگار ہونے والے لاکھوں لوگوں میں پائی جانے والی تشویش اور بے چینی کو دور کیا جا سکے۔

مظاہرین سے حکومتی اراکین پر مشتمل وفد جس میں میر محمد صادق عمرانی، میر ظہور احمد بلیدی، حاجی نور محمد دمڑ، میر سلیم احمد کھوسہ، میر برکت رند اور دیگر نے مذاکرات کئے۔

لیکن مظاہرین نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے تحریری طور پر اس اقدام کے حل کے لئے یقین دہانی تک بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاجی کیمپ لگا لیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *