بلوچستان کے ضلع لورا لائی میں گزشتہ دنوں پولیو وائرس کے ایک اور کیس کی تصدیق کے بعد رواں سال صوبے میں پولیو کیسز کی تعداد 21 ہوگئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق متاثرہ بچے کو 8 اکتوبر 2024 سے فالج شروع ہوا تھا۔
اس سے قبل بلوچستان کے اضلاع قلعہ عبداللہ، چمن، ڈیرہ بگٹی، جھل مگسی، ژوب، قلعہ سیف اللہ، خاران، کوئٹہ اور لورا لائی کے بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔
رواں سال بلوچستان سے 21، سندھ سے 12، خیبر پختونخوا سے 6 اور پنجاب اور اسلام آباد سے ایک ایک پولیو کیس رپورٹ ہوا ہے۔
ملک بھر میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم شروع ہوگئی ہے۔
بلوچستان میں پولیو کیسز کی شرح میں اضافہ تشویشناک ہے جس کی بڑی وجہ والدین کا اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلانا، افغانستان سے آمد و رفت، پولیو ویکسین کے خلاف منفی پروپیگنڈہ ہے ۔
ا س کے علاوہ حال ہی میں بلوچستان میں پولیو ورکرز اور والدین کی ملی بھگت سے بچوں کی ویکسینیشن نہ کرانے کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا جو کہ صوبے میں موذی مرض کے بڑھنے کا سبب ہے۔
بلوچستان میں پولیو جیسے موذی مرض کا تدارک انتہائی ضروری ہے جو کہ تیزی کے ساتھ بلوچستان میں پھیل رہا ہے جس سے معصوم بچے عمر بھر کی معذوری میں مبتلا ہورہے ہیں یقینا محکمہ صحت کی جانب سے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں مگر بلوچستان حکومت کو ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا ہوگا جو بلوچستان میں پولیو مرض بڑھنے کی وجہ بن رہے ہیں تاکہ اس پر منظم طریقے سے قابو پاپا جاسکے۔
اب پولیو مہم کا آغاز کردیا گیا ہے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے پولیو مہم کو کامیاب بنایا جائے۔
ویسے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کا پروگرام گزشتہ 25 سالوں سے جاری ہے ۔
اس پروگرام کا ہراول دستہ پولیو ورکرز ہیں جن پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس مشن کو احسن طریقے سے سر انجام دیں۔
اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہت سے پولیو ورکرز نے فرائض کے دوران جام شہادت بھی نوش کی مگران کے دیگرساتھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
دور دراز علاقوں میں گھر گھرجاکر پولیو کے قطرے پلاتے ہیں ۔
اس میں صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کی کاوشیں بھی قابل تعریف ہیں جو اس پروگرام کو دنیا کے سب سے بڑے نگرانی کے نظام کی خدمات، معلومات کے حصول اور تجزیے کا اعلیٰ معیار کا نیٹ ورک، جدید ترین لیبارٹریز، وبائی امراض کے بہترین ماہرین اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں پبلک ہیلتھ کے نمایاں ماہرین کو بھی اس پروگرام کا حصہ بنایا ہے۔
ملک کے شہریوں کیلئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پولیو ایک انتہائی متعدی اور وائرس سے پھیلنے والی بیماری ہے جو عام طور پر پانچ سال تک کے بچوں کو متاثر کرتی ہے۔
پولیو کا وائرس ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے اور یہ پاخانے کے یا منہ کے راستے سے پھیلتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ پولیو وائرس آلودہ پانی یا خوراک کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔
جسم میں داخل ہونے کے بعد وائرس انسانی آنتوں میں پھلنا پھولنا شروع کردیتا ہے جہاں سے یہ اعصابی نظام پر حملہ آور ہوکر فالج کا باعث بنتا ہے۔
پولیو کی ابتدائی طور پر ظاہر ہونے والی علامات میں بخار، شدید تھکاوٹ ، سر درد، متلی یا قے ، گردن کا اکڑ جانا اور اعصابی درد شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق چند کیسز میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پولیو وائرس اعصابی نظام پر حملہ ہوکر فالج کی وجہ بنتا ہے اور پولیو وائرس کے حملے سے ہونے والا فالج مستقل ہوتا ہے۔
پولیو کا کوئی علاج نہیں، اس سے بچاؤ کا واحد راستہ پولیو ویکسین یعنی پولیو سے بچاؤ کے قطروں کا استعمال ہے۔
اس وقت دنیا میں پاکستان ، نائجیریا اور افغانستان چند ایسے ممالک ہیں جہاں پولیو وائرس آج بھی موجود ہے اور اس نے بچوں کی صحت اور تندرستی کو مسلسل خطرے میں ڈال رکھا ہے۔
پاکستان کو پولیو فری ملک بنانے کیلئے صرف حکومت نہیں بلکہ شہریوں سمیت تمام مکاتب فکر کے افراد کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا تاکہ ہمارے مستقبل کے معمار عمر بھر کی معذوری سے محفوظ ہوکر ایک صحت مند زندگی گزاریں۔
ترقی کیلئے صحت مند معاشرے کا کلیدی کردار ہوتا ہے امید ہے کہ پولیو مہم جیسے اہم مشن میں ہم سب اپنا حصہ ڈال کر پاکستان سے پولیو کا خاتمہ کرنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرینگے۔
بلوچستان میں پولیو کیسز کی بڑھتی شرح، خطرے کی گھنٹی، فری پولیو پاکستان ہماری ذمہ داری!
وقتِ اشاعت : October 29 – 2024
Leave a Reply