|

وقتِ اشاعت :   October 29 – 2024

کوئٹہ: پشتونخوانیشنل عوامی پارٹی کے چیئرمین خوشحال خان کاکڑ نے کہا ہے کہ حکومت اور ان کے سیکورٹی فورسز کی موجودگی میں معدنی وسائل سے مالامال پشتون علاقوں میں جعلی دہشتگردی اور لاقانونیت کے مسلسل واقعات حکومتوں اور ان کے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے؟

اور سالہا سال سے ان واقعات میں ملوث کسی بھی ملزم کے عدم گرفتاری ہمارے عوام کی تشویش میں اضافے کا باعث بن رہا ہے حکومت اور مقتدر قوتیں ہوش کے ناخون لے اور پشتون افغان ملت کی شرافت اور برداشت کی قوت کوغلط معنی نہ پہنائے اور زمینی حقائق کا ادراک کریں۔

وہ ہائی کور ٹ میں قومی حلقہ 251 کی سماعت کے بعد میڈیا نمائندوں سے بات چیت کررہے تھے اس موقع پر پارٹی کے سینئر سیکریٹری سید قادر آغا ایڈوکیٹ، مرکزی سیکریٹری اطلاعات محمد عیسی روشان، صوبائی سیکریٹری فقیر خوشحال کاسی سمیت پارٹی کے صوبائی، ضلعی، علاقائی عہدیدار اور کارکن بھی موجود تھے۔

پارٹی چیئرمین خوشحال خان کاکڑنیکہا کہ دکی میں 23مزدوروں کی شہادت کے المناک واقعہ کے حوالے سے ایک تنظیم نے اس واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے

جبکہ راڑا ہاشم کے واقعے کی ذمہ داری قبول کی تھی ہم نے بلوچ سیاسی قیادت پر کئی بار واضح کیا ہے کہ پشتون علاقوں میں توسیع پسندی، قبضہ گری اور کسی قسم کی کاروائی پشتون ملت کو قابل قبول نہیں جبکہ ان تمام علاقوں میں سیکورٹی فورسز کی موجودگی ان کے ڈبل تنخواہوں، مراعات اور بھتہ خوری وصول کرنے کے باوجود دہشتگردی کیواقعات کے باعث پشتون عوام میں یہ تاثر پختہ ہورہا ہے کہ یہ جعلی دہشتگردی، بدامنی اور لاقانونیت شعوری طورپر مسلط کی گئی ہے اور اس کا مقصد پشتونخوا وطن کے معدنی وسائل پر قبضہ کرکے ان کی لوٹ مار جاری رکھنا ہے

جو ہمارے ملت کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال سے نجات قبائلی انداز میں لڑنا نہیں بلکہ سیاسی جمہوری جدوجہد کو مزید وسیع، منظم اور متحد کرنا ہے اور واضح مقف کے ساتھ مسلط اور قابض قوتوں کا نام لیکر ان کی نشاندہی کرنا لازمی ہے پشتونخوانیپ نے اس جعلی دہشتگردی اور بدامنی کے خلاف ہمیشہ آواز بلندکی ہے

اور وطنپال پارٹیوں کے ساتھ ملکر مسلسل احتجاجی تحریک چلائی ہیں اور اس تمام صورتحال کی ذمہ داری وفاقی، صوبائی حکومتوں اور ان کے متعلقہ اداروں پر عائد ہوتی ہے جو امن وامان کے نام پر سالانہ اربوں روپے لے رہے ہیں اور معدنی وسائل کے علاقوں سے غیر قانونی ٹیکس یعنی بھتہ خوری کی شکل میں ایک ٹن پر 300 سے زائد روپے وصول کررہے ہیں

اور اس کے باوجود دہشتگردی اور بدامنی کے واقعات میں ملوث ملزموں کی سرکوبی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حلقہ این اے 251 سے متعلق 25 سے 30 تک سماعتیں ہو چکی ہے اور ہم نے جو ثبوت پیش کی ہیں اور ہماری طرف سے جو گواہ پیش ہوئے ان پر ہم مطمئن ہے اور ہمیں انصاف کی توقع ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مخالف فریق سماعتوں سے غیر حاضر رہ کر اس کیس کو طول دینا چاہتے ہیں جو قابل افسوس ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *