کوئٹہ: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اصغر علی ترین نے سیکرٹری خزانہ کے پی اے سی اجلاس میں عدم حاظر پر غم و غصے کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ محکمے کارویہ متکبرانہ ہے اور پی اے سی کے لیے احترام نہ ہونے کو ظاہر کرتا ہیں،
پی اے سی ممبران نے سیکرٹری خزانہ بلوچستان کے خلاف صوبائی اسمبلی میں تحریک استحقاق جمع کروادی۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس جمعہ کو چیئرمین کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں پی اے سی ممبران فضل قادر مندوخیل ،اکائونٹنٹ جنرل بلوچستان نصراللہ جان ، ڈی جی آڈٹ شجاع علی، ایڈیشنل سیکرٹری پی اے سی سراج لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری قانون سعید اقبال، محکمہ خزانہ کے ایڈیشنل سیکرٹری محمد عارف ،
ڈی جی خزانہ سیف اللہ مینگل و دیگرنے شرکت کی اجلاس میں سیکرٹری خزانہ شریک نہیں ہوئے اور نہ ہی محکمہ کی جانب سے آن لائن پی اے سی پورٹل پر پیراز کے جواب اپ لوڈ کئے گئے ۔
کمیٹی نے اجلاس میں سیکرٹری خزانہ کی عدم شرکت پر محکمہ کے خلاف کاروائی کے لئے چیف سیکرٹری کو مراسلہ بھیجنے کا فیصلہ کیااورکہا گیا کہ محکمہ خزانہ کے خلاف کارروائی نہ ہونے تک پی اے سی محکمہ خزانہ کی کوئی میٹنگ نہیں بلائیگی کیونکہ خزانہ ڈپارٹمنٹ کے آڈٹ پیراز پر کوئی جوابدہی کے لئے تیار نہیں۔
فضل قادر مندوخیل نے کہا کہ محکمہ خزانہ کوئی اصول کوئی قانون اور کوئی قواعد نہیں مانتا اس کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔
چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی اصغر علی ترین نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی احکامات مسترد کرنے پر سیکرٹری محکمہ خزانہ کی سرزنش کی پی اے سی ممبران نے سیکرٹری خزانہ بلوچستان کے خلاف صوبائی اسمبلی میں تحریک استحقاق جمع کروالی۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اصغر علی ترین نے محکمہ خزانہ کی جانب سے کمیٹی کی کارروائی کو کھلم کھلا نظر انداز کرنے کی مذمت کی ہے 10 اکتوبر کو پی اے سی اجلاس میں شرکت کے لئیے لیٹر جاری ہونے کے باوجود محکمہ اپنے جوابات نہیں جمع کراوئے اور نہ ہی سیکرٹری خزانہ نے اجلاس میں شرکت کرنے کی زحمت کی سیکرٹری خزانہ کی عدم حاضری پر پی اے کا اجلاس ملتوی کیا گیا۔
چیئرمین اصغر علی ترین نے اس موقع پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ کا رویہ متکبرانہ ہے اور پی اے سی کے لیے احترام نہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے اگر سیکرٹری موجود نہ ہو تو ہم کس طرح آڈٹ پیراز زیرغورلائینگے جوابدہ کون ہوگا؟ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کے ممبران ،پی اے سی اسٹاف، آڈیٹر جنرل اور اے جی بلوچستان کو پیراز پر بحث کرنے کے لیے پہلے تیاری کرنی پڑتی ہے۔ محکمہ نے جوابات دینے کی بھی زحمت نہیں کی۔
چیئرمین نے کہا کہ سمجھ نہیں آتی کہ کس طرح اس آئینی فورم کو ایک محکمہ نظر انداز کر رہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ محکمہ خزانہ کی غیر سنجیدگی قابل مذمت اور قابل تشویش ہے دیگر محکموں کے سیکرٹریز نے بغیر کسی مسئلہ کے اجلاسوں میں شرکت کی ہے۔
چیئرمین ترین نے نشاندہی کی کہ محکمہ کے آفیسران کو تنخواہیں کام کرنے کے لئے دی جاتی ہے اور اگر وہ اس آئینی فورمز کے اجلاس میں شرکت بھی کرتے ہیں
تووہ ہم پر کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ ان کو پی اے سی کے سامنے حساب کتاب دینا ہوتاہے، لیکن لاکھوں میں تنخواہ لینے کے باوجود، پھر بھی وہ کمیٹی کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بیس دن کے بعد بھی محکمہ خزانہ کی غیر تیاری ناقابل قبول ہے اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔
Leave a Reply