|

وقتِ اشاعت :   November 5 – 2024

26 ویں آئینی ترمیم کے بعد ملکی سیاست کا مرکز اس وقت سپریم کورٹ بن چکا ہے جس کی بڑی وجہ جوڈیشری میں تقسیم ہے ،چند ججز کے فیصلوں نے اعلیٰ عدلیہ میں ججزکے دھڑے بنادیئے ہیں ۔
سیاسی جماعتیں بھی اپنے پسندیدہ ججز کو آئینی بنچ میں زیادہ تعداد میں دیکھنا چاہتی ہیں حکومت اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے بیانات خود اس کے واضح ثبوت ہیں کہ وہ آئینی بنچ میں کن ججز کو دیکھنا نہیں چاہتے ۔
بہرحال یہ ایک بڑا المیہ ہے عدلیہ اورججز کا کام سستی اور فوری انصاف کی فراہمی ہے مگر گزشتہ چند برسوں کے دوران ایسے فیصلے سامنے آئے کہ جس سے ن لیگ، پیپلز پارٹی اور اپوزیشن کی جماعت پی ٹی آئی بھی ناخوش رہی کیونکہ فیصلے خود بتاتے ہیں اور تاثر واضح ہو جاتا ہے کہ کونسا فیصلہ کس جماعت کے حق میں گیا ہے ۔
پانامہ لیک سے لیکر مخصوص نشستوں تک کے فیصلوں سے سیاسی جماعتوں نے ججز کیلئے اپنی ایک مخصوص رائے بنا رکھی ہے ،اسی طرح ججز بھی یہی سمجھتے ہیں۔
اب 26 ویں آئینی ترمیم پر عدلیہ اور ججز کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔
26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ بینچ کے لیے دو سینئر ترین ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھا ہے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں شامل جسٹس منصور شاہ اور جسٹس منیب نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ کر ججز کمیٹی کے فیصلے کے مطابق 26 ویں ترمیم کا کیس فل کورٹ میں لگانے کا کہا ہے۔
دونوں سینئر ججز کے خط میں کہا گیا ہے کہ 31 اکتوبر کی کمیٹی میٹنگ میں 26 ویں ترمیم کا کیس فل کورٹ میں لگانے کا فیصلہ کیا گیا مگر کمیٹی فیصلے کے باوجود کوئی کاز لسٹ جاری نہیں ہوئی۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ 2 ججز نے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ 26 ویں ترمیم کے خلاف کیس 4 نومبر کو فل کورٹ سنے گی اور 2 رکنی ججز کمیٹی کا فیصلہ اب بھی برقرار ہے۔
ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کے مطابق کمیٹی اجلاس میں کیے گئے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے کاز لسٹ جاری کی جانی چاہیے اور اسی ہفتے 26 ویں ترمیم کے خلاف درخواستیں فل کورٹ کے سامنے لگائی جائیں۔
جسٹس منصور اور جسٹس منیب اختر نے اپنے خط میں 31 اکتوبر کے میٹنگ منٹس رجسٹرار کو ویب سائٹ پر جاری کرنے کی ہدایت بھی کردی ہے۔
اس سے قبل ایک خط جسٹس منصور علی شاہ نے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے متعلق لکھا تھا جس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس پر سخت تنقید کی تھی ۔
بہرحال عدلیہ اور ججز میں تقسیم اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے پسندیدہ ججزکا تاثر ایک بڑے بحران کا باعث بن سکتا ہے ،پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان اب آئینی جنگ چھڑ چکی ہے اور ان حالات میں ملک میں آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ موجود ہے جس سے سیاسی عدم استحکام مزید گھمبیر ہوسکتا ہے۔
پارلیمان اور اعلیٰ عدلیہ دونوں ادارے ریاست کے اہم ترین ستون ہیں جن کے درمیان ٹکراؤ اور تناؤ کا کم ہونا ضروری ہے تاکہ ملک بحرانی کیفیت کا شکار ہونے سے بچ جائے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *